غزہ: 11 روز تک غزہ پر وحشیانہ بمباری کے بعد اسرائیلی حکومت کابینہ کی منظوری کے ساتھ نے غزہ میں جاری جنگی کاروائی روکنےکا اعلان کردیا ہے مگر اس سے قبل غزہ پر خوفناک بمباری کی۔دوسری جانب حماس نے بھی جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل پر جنگ بندی کا زور دیا جارہاغ تھا۔پہلے اسرائیلی کابینہ کی جنگ بندی کی منظوری کی خبر آگئی تھی۔اس وقت اقوام متحدہ کا اجلاس جاری تھا۔
دراصل امریکی صدر جو بائٹن کی اسرائیلی وزیراعظم بنجا من نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پربات چیت کے بعد جنگ بندی کی امید پیدا ہوگئی تھی لیکن جنگ بندی کا اعلان کرنے سے قبل اسرائیل نےغزہ پر زبردست بمباری کی۔جنگ بندی جمعہ سے نافذ ہوجائے گی۔
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کا منظر
اقوام متحدہ میں کیا ہوا
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے آج اجلاس میں غزہ اور اسرائیل کے حالات پر سخت تشویش ظاہر کی اوردونوں فریقوں سے ہتھیار رکھ دینے کی اپیل کی ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دس دنوں کے دوران بہت ہی خطرناک تشدد دیکھنے کو ملا ہے۔خاص طور سے غزہ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت اور افسوس ہے کہ اسرائیل اس وقت بھی بمباری کررہا ہے۔ایک ہی خاندان کے نو افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ خوفناک ہے۔ غزہ یقینا بچوں کےلئے جہنم بن گیا ہے۔انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی میڈیا مراکز پر بمباری پر سخت تشویش ظاہر کی اور کہا کہ صحافیوں کو ان کی ذمہ داریاں نبھانے کا پورا حق حاصل ہے۔انہوں نے حماس اور دیگر جنگجو گروپوں کے حملوں کی بھی مذمت کی۔
An immediate ceasefire and a revitalized Middle East peace process are the only route to a just and lasting solution. pic.twitter.com/D2cv49tWPS
— António Guterres (@antonioguterres) May 20, 2021
اسرائیل کی دلیل
اسرائیلی سفیر کا اقوام متحدہ میں خطاب اسرائیل کے سفیر جیلاد اردن نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اسمبلی میں موجود بہت سے مقررین نے اسرائیل فلسطینی تنازعے پر بات کرتے ہوئے حماس اور اس کی کارروائیوں سے صرف نظر کیا ہے۔ انہوں نے حماس کو ’نازی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عسکریت پسند گروپ یہودیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی تباہی کے نعرے بلند کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غلط موازنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
اسرائیل، ان کے بقول ایک امن پسند جمہوریت ہے جو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرتی ہے اور حماس، ان کے الفاظ میں، ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کے نظریات داعش سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حماس، مسٹر جیلاڈ کے بقول اسرائیلی سویلینز پر فائرنگ کرتا ہے اور وہ اپنے ہتھیاروں کو فلسطینی عوام سے بھی چھپاتے ہیں اور ان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اسرائیلی سفیر نے کہا کہ حماس کے راکٹ فائر اندھادھند اور شہریوں پر بلا امتیاز حملہ ہیں جب کہ اسرائیلی حملے بہت جامع اور سرجیکل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین سے بھی کہیں آگے کے معیار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے شہریوں کے دفاع پر کسی سے معافی نہیں مانگیں گے۔
مصر نے کی ثالثی
کل شام کو ہی الجزیرہ ٹی وی کا دعویٰ کردیا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت نےجنگی کارروائیاں روکنے کیلئے مصری ایلچی کو باضابطہ طور پرآگاہ کردیا ہے۔یہ خبر اس وقت آئی تھی جب اسرائیل کی سلامتی کابینہ کا اجلاس جاری تھا جس میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی معاہدے پر غور کیاگیا تھا۔اسرائیلی حکومت نے مصر کو آگاہ کردیا ہے کہ وہ اس اجلاس کے بعد جنگ بندی کو قبول کرنے کااعلان کردے گی۔ان جھڑپوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 232 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں اس کے 12 شہری ہلاک ہوئے ۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جمعے کی صبح تک جنگ بندی کا امکان ہے اور ایسا ہی ہوا۔امریکی و غیر ملکی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مصری حکام اور حماس رہنماؤں کے درمیان بات چیت میں بامعنی پیش رفت دیکھی گئی ہے اور اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے نزدیک ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکا، مصر ، قطر اور متعدد یورپی ممالک اسرائیلی وزیراعظم اور حماس رہنماؤں پرحملے روکنے کیلئے دباو ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
تنازعہ کا آغاز
خیال رہے کہ گزشتہ کئی عرصے سے مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس کیخلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔اسی دوران جمعۃ الوداع کے روز اسرائیلی فورسز نے مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر چڑھائی کردی جس کے نتیجے میں متعدد نمازی زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد حماس نے اسرائیل سے مسجد الاقصیٰ سے فوری طور پر فوج ہٹانے کا مطالبہ کیاا اور اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔پھر حماس کی جانب سے گزشتہ روز غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغے گئے جس میں اطلاعات کے مطابق 2 اسرائیلی ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔ اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دےگا اور حملہ کرنے والوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی اور پھر اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری شروع کردی۔
اشارہ مل گیا تھا
امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو پر غزہ میں جاری کشیدگی میں ’کمی‘ لانے پر زور دینے کے بعد حماس کے ایک سینیئر عہدے دار نے عندیہ دیا تھا کہ جنگ بندی ممکنہ طور پر کچھ ہی دن دور ہے۔حماس کے سیاسی اہلکار موسیٰ ابو مرذوق نے لبنانی چینل المیادین ٹی وی کو بتایا: ’میرے خیال میں جنگ بندی کے لیے ہونے والی کوششیں کامیاب ہوں گی۔مجھے توقع ہے کہ ایک یا دو دن میں جنگ بندی پر معاہدہ ہو جائے گا اور یہ دونوں کی رضامندی سے ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری جانب اسرائیلی سرکاری ریڈیو پر وزیر انٹیلی جنس ایلائی کوہن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا جنگ بندی جمعے سے ہوگی تو ان کا کہنا تھا: ’نہیں، ہمیں واقعی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔۔ مگر ہم تب آپریشن ختم کریں گے جب ہمیں لگے گا کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔‘