جنیوا: امریکہ نے 4 جون 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے والی قرارداد کو ویٹو کر دیا، جس پر 14 دیگر ارکان نے حمایت کی تھی۔ امریکی نمائندہ ڈوروتھی شیا نے اس اقدام کو اس دلیل کے ساتھ درست قرار دیا کہ یہ قرارداد حماس کی مذمت نہیں کرتی اور اس کے ہتھیاروں کی ضبطی کا مطالبہ نہیں کرتی، جو امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔
اس ویٹو کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ فرانس اور برطانیہ کے سفیروں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا، جب کہ چین کے سفیر فو کونگ نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی مفادات سے دستبردار ہو کر منصفانہ اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرے۔ الجزائر کے سفیر عمار بن جامع نے کہا کہ "خاموشی نہ مردوں کا دفاع کرتی ہے، نہ مرتے ہوؤں کا ہاتھ تھامتی ہے، اور نہ ہی ظلم کے نتائج کا سامنا کرتی ہے۔
پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے امریکی ویٹو پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی اجازت اور سلامتی کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ قرار دیا۔ یہ ویٹو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہلا ویٹو ہے۔ اس سے قبل سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے ایسی ہی ایک قرارداد کو روکا تھا، جو جنگ بندی کا مطالبہ کرتی تھی۔
اس ویٹو کے بعد، غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی سامان کی فراہمی میں شدید رکاوٹیں ہیں، اور غزہ قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ اسی دوران، امریکہ کی معاونت یافتہ "غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن" نے 26 مئی سے غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم شروع کی تھی، تاہم بدھ کے روز ادارے نے اپنے مراکز عارضی طور پر بند کر دیے، کیوں کہ ان کے اطراف حالیہ دنوں میں اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔
فلسطینی سفیر ریاض منصور نے منگل کے روز کہا آپ سلامتی کونسل میں غصہ دیکھ رہے ہیں... اور پھر بھی بے بسی کو قبول کرتے ہیں؟ آپ کو حرکت میں آنا ہو گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ویٹو استعمال کیا گیا، تو دباؤ ان پر ہو گا جو سلامتی کونسل کو اس کی ذمہ داری ادا کرنے سے روکتے ہیں، اور مزید کہا: "تاریخ ہم سب کا احتساب کرے گی کہ ہم نے فلسطینی قوم کے خلاف اس جرم کو روکنے کے لیے کیا کیا۔ یہ ویٹو عالمی سطح پر امریکہ کی پالیسیوں پر سوالات اٹھاتا ہے اور غزہ میں جاری انسانی بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری کے کردار پر غور و فکر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔