یقین دہانیوں، بیانات اور تردیدوں کے درمیان بالآخر اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے اعلیٰ عسکری رہنما محمد سنوار کی لاش مل گئی ہے۔ یہ انکشاف اتوار کے روز سامنے آیا، جب اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ انہیں خان یونس میں ایک سرنگ سے محمد سنوار کی لاش ملی ہے، جو یورپی ہسپتال کے نیچے ایک کمپاؤنڈ کے قریب موجود تھی۔
فوج کا کہنا ہے کہ لاش کی شناخت مکمل کر لی گئی ہے، اور اس دعوے کی توثیق بھی کر دی گئی ہے کہ سنوار 13 مئی کو ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ بیان تین ہفتے قبل کیے گئے اسرائیلی دعوے کی تصدیق کرتا ہے، جس میں ان کے مارے جانے کا ذکر تھا، تاہم حماس نے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین نے بتایا کہ محمد سنوار کی لاش یورپی ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے نیچے واقع ایک سرنگ میں ملی۔ اس سرنگ میں ان کی ذاتی اشیاء بھی دریافت ہوئیں، جبکہ کچھ دیگر شواہد کو مزید تحقیقات کے لیے بھیجا گیا ہے۔
محمد سنوار، جو حماس کے مقتول رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی تھے، طویل عرصے سے القسام بریگیڈ کے سرگرم رکن اور قیادت کے اہم رکن سمجھے جاتے تھے۔ انہیں 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے اغوا جیسے اہم آپریشن کا منصوبہ ساز بھی سمجھا جاتا ہے۔
ان کی موت نہ صرف حماس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی سے متعلق جاری بین الاقوامی سفارتی کوششوں کے لیے بھی ایک رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران محمد سنوار سمیت دیگر اعلیٰ حماس رہنماؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا اور عزم دہرایا کہ جب تک تمام اسرائیلی قیدی رہا نہیں ہوتے اور حماس کو مکمل طور پر کمزور، غیر مسلح یا جلا وطن نہیں کر دیا جاتا، کارروائیاں جاری رہیں گی۔
خان یونس، جو سنوار خاندان کا آبائی شہر ہے، حماس کے زیر زمین نیٹ ورک اور کمانڈ سسٹمز کے لیے ایک مرکزی مقام رہا ہے۔ اسی علاقے میں یہ فضائی حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، چھ افراد مارے گئے اور کم از کم 40 زخمی ہوئے۔
محمد سنوار کی عسکری تاریخ، ان کے اثرورسوخ، اور ان کے آخری ایام اب غزہ کی جنگ کی داستان کا مستقل حصہ بن چکے ہیں، جہاں شدت پسندی، مزاحمت اور سیاسی پیچیدگیاں بدستور جاری ہیں۔