جی سیون سمٹ:چین کیوں ہوگیا بے چین؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
جی سیون سے پریشان چین
جی سیون سے پریشان چین

 

 

 لندن: جی سیون سمٹ کا ہر دن سب سے زیادہ چین کو بھاری پڑ گیا کیونکہ ایک جانب جہا ں جی سیون نے اس خطہ میں چین کی اقتصادی پیش قدمی کے جال کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا وہیں سنکیانگ میں ایغورمسلمانوں کا نام لئے بغیر مظالم ڈھانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کلی بے چینی سیاسی بیان بازی کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔چین نے سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کو واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ وہ دن ختم ہو چکے ہیں جب ’چھوٹے‘ ممالک کے گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔دراصل یہ درد ہے سات امیر ممالک پر مشتمل گروپ جی سیون نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے جواب میں گلوبل انفراسٹرکچر پلان بنانے کا۔جس نے چین کی نیند اڑادی ہے۔جی سیون نے سنکیانگ میں جبرا مشقت کرانے کی مذمت کی ہے جس نے چین کو تلملا دیا ہے۔ جی سیون نے جو نیا اقتصادی پلان بنایا ہے اس پر ہندوستان بھی غور کرے گا جس کو چین کے سلک روڈ کے پروجیکٹ کا جواب مانا جارہا ہے۔ 

غریب ممالک کو کوویڈ ویکسین کی ایک بلین ڈوزز 

دوسری جانب میزبان برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے جی سیون سمٹ کے اختتام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی سیون سمٹ میں غریب ممالک کو کوویڈ ویکسین کی ایک بلین ڈوزز فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران بورس جانسن نے مزید کہا ک 40 ملین مزید لڑکیوں کی اسکولوں میں تعلیم کے حصول میں مدد کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ سمٹ لیڈرز نے گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکشن کیلئے رقم کی فراہمی پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔اس حوالے سے برطانیہ گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے لیے 430 ملین پاؤنڈ دے گا۔ بورس جانسن نے کہا کہ بچوں خصوصاً لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بناکر غریب ممالک کو غربت سے نکالا جاسکتا ہے۔ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں جی سیون ممالک کا 20 فیصد حصہ ہے۔ ماحول کی بہتری کے لئے اقدامات بھی اٹھائیں گے۔ برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کی بہتری کیلئے تیزی سے کام کریں گے اور ترقی پذیر ممالک کی مدد بھی کریں گے۔

جی سیون: چین کیوں ہوا بے چین

چین نے سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کو واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ وہ دن ختم ہو چکے ہیں جب ’چھوٹے‘ ممالک کے گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔چین نے اس بیان کے ذریعے امیر ترین جمہوریتوں کو نشانہ بنایا ہے جنہوں نے بیجنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ لندن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’کہ وہ دن ختم ہو چکے ہیں جب عالمی فیصلے چھوٹے ممالک کا ایک گروہ کیا کرتا تھا۔ ’ہمارا ہمیشہ سے یقین ہے کہ تمام ممالک چاہے وہ بڑے یا چھوٹے ہوں، مضبوط یا کمزور ہوں، غریب یا امیر ہوں برابر ہیں اور دنیا کے معامالت تمام ممالک کی مشاورت سے چلائے جانے چاہیں۔‘ چینی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’واحد جائز عالمی نظام اقوام متحدہ کے اصولوں پر مبنی بین الاقوامی آرڈر ہے، نہ کہ چھوٹے ممالک کے وضع کیے نام نہاد اصول۔‘ جی سیون جس کے رہنما جنوب مغربی برطانیہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔ گذشتہ 40 سالوں میں چین کے شاندار معاشی عروج کے بعد صدر شی جن پنگ کی بڑھتی خود اعتمادی کے خلاف کسی مشترکہ لائحہ عمل کی تلاش میں ہیں۔ جی سیون ترقی پذیز ممالک کو ایک انفراسٹکچر سکیم پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو صدر شی جن پنگ کے اربوں ڈالر کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ جی سیون ترقی پذیز ممالک کو ایک انفراسٹکچراسکیم پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو صدر شی جن پنگ کے اربوں ڈالر کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

چین کے خلاف ‘جی سیون’ کا گلوبل انفراسٹرکچر پلان

سات امیر ممالک پر مشتمل گروپ جی سیون نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے جواب میں گلوبل انفراسٹرکچر پلان بنایا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ ’امریکہ جی سیون کے دوسرے قائدین پر زور دے گا کہ وہ چین میں زبردستی مشقت لیے جانے کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ صرف چین کا سامنا کرنے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اب تک ہم نے کچھ ایسا متبادل نہیں کیا جو ہماری اقدار، معیار اور کاروبار کے انداز کو ظاہر کرے۔

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کھربوں ڈالر کا ہے جو صدر شی جن پنگ نے 2013 میں شروع کیا تھا اور جس میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں جو چین کو ایشیا سے یورپ اور آگے تک کنکٹ کرے گا۔سو سے زائد ممالک نے اس منصوبے کے لیے چین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں ریلوے، سپورٹس، بڑی سڑکوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شامل ہے۔

 اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے وسط تک 3.7 کھرب ڈالر کے 2600 سے زائد منصوبے اس پروگرام میں شامل ہوئے حالانکہ چینی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے 20 فیصد منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ میں کہا تھا کہ انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن، جو جی سیون کی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں، کو تجویز دی ہے کہ جمہوری ممالک کو اس منصوبے کے مقابلے میں اپنی سکیم تیار کرنی چاہیے۔

امریکہ کا کہنا تھا کہ ’اب تک مغرب چینی حکومت میں شفافیت کی کمی، ماحولیاتی اور مزدوری کے لحاظ سے ناقص معیار اور جابرانہ انداز کے حوالے سے مثبت متبادل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے جس نے کئی ممالک کو برے حالات میں دھکیلا۔‘ ان کے مطابق ’کل ہم جی سیون پارٹنرز کے ساتھ گلوبل انفراسٹرکچر پروگرام کا اعلان کرنے جا رہے ہیں جو صرف بیلٹ اینڈ روڈ کا ہی متبادل نہیں ہو گا۔

 مذاکرات میں امریکی صدر بائیڈن دوسرے قائدین پر زور دیں گے کہ ’وہ واضح کریں کہ جبری مشقت انسانی وقار کے منافی اور چین کی غیر منصفانہ معاشی مسابقت کی ایک قابل مذمت مثال ہے اور دکھائیں کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہیں۔ سربراہی اجلاس کے آخر میں جاری اعلامیے کے حوالے سے بتایا کہ ’ہم سنکیانگ جیسے علاقوں پر زیادہ زور دے رہے ہیں جہاں پر جبری مشقت لی جا رہی ہے اور یہاں ہم نے جی سیون کی حیثیت سے اپنی اقدار کا اظہار کرنا ہے۔