مالدیپ کے وزیر خارجہ یو این جنرل اسمبلی کے صدر منتخب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-06-2021
مالدیپ کے وزیر خارجہ عبد اللہ شاہد
مالدیپ کے وزیر خارجہ عبد اللہ شاہد

 

 

 اقوام متحدہ

دو جنوبی ایشین ممالک کےانتخابی معرکے کے بعد مالدیپ کے وزیر خارجہ عبد اللہ شاہد نے افغانستان کے نامزد امیدوار کو شکست دے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کا انتخاب جیت لیا ہے ۔

پیر کو ہونے والے انتخابات میں شاہد ، جنہیں ہندوستان کی بھی حمایت حاصل تھی ، افغانستان کے سابق وزیر خارجہ زلمے رسول کے 143 اور 48کے فرق سے ہرایا ۔ شاہد نے اس انتخاب کو کووڈ وبائی امراض سے پیدا ہونے والی تباہی کے خلاف جدوجہد کرنے والی دنیا کے لئے امید قرار دیا ہے ۔

وہ ستمبر میں شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس کی صدارت کریں گے اور اس طرح وہ ترکی کے وولکن بوزکیر کے جانشین ہوں گے۔

سیکیورٹی کونسل میں اگلا بڑا انتخابی عمل منگل کو شروع ہوگا جب سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس کی دوسری میعاد کی توثیق کی جائے گی اور اس کے بعد جنرل اسمبلی کو سفارشات بھیجی جائیں گی ۔ وہ بلامقابلہ ہونے والے اس انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اگرچہ اس عہدے کے لئے کم از کم چھ دیگر افراد نے خود کو نامزد کیا تھا ۔ چونکہ انہیں کسی بھی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہے ، لہذا کونسل ان کے ناموں پر غور بھی نہیں کررہی ہے۔

عبد الله شاہد نے اپنے انتخاب کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ بیماری ، مایوسی اور تباہی کا سال رہا ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب ہم معاشروں کی تعمیر نو اور معیشت کی بازیابی کے لئے کوشاں ہیں ، ہمیں امید بحال رکھنی ہوگی ۔

اس سے قبل انہوں نے اسمبلی کو بتایا کہ دنیا کو وبائی امراض سے بازیاب ہونے میں مدد کرنا مستقبل میں ان کے لئے خاصا اہم ہوگا ۔ میری فوری ترجیح کوو ڈ سے بحالی ہوگی۔ موجودہ اقدامات اور نقطہ نظر کی بنیاد پر میں لوگوں کی صحت اور معیشت کی طرف توجہ مبذول کروں گا ۔

ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے شاہد کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ "یہ مالدیپ کی طرح خود ان کے اپنے قد کا جاتا جاگتا ثبوت ہے ۔ ہم کثیرالجہتی اور اس کی بہت زیادہ ضروری اصلاحات کو مستحکم کرنے کے لئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں"۔ گٹیرس نے کہا کہ " بطور وزیر خارجہ ان کے اپنے موجودہ کردار کے علاوہ شاہد کے دیرینہ سفارتی تجربے کے نتیجے میں انہیں آج کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کثیرالجہتی کی اہمیت کی گہری تفہیم ملی ہے ۔

 

سیاست میں آنے سے پہلے شاہد ایک کیریئر سفارتکار تھے ۔ وہ پہلی بار سن 2000 میں مالدیپ کی پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوئے اور 2009 میں اسپیکر بنے ۔

اس درمیان وہ 2005 سے 2007 تک وزیر مملکت برائے امور خارجہ رہے اور 2007 سے 2008 تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے مختصر کام کیا۔ انہوں نے 2018 میں دوبارہ یہ عہدہ سنبھالا۔

اسمبلی کی صدارت اقوام متحدہ میں پانچ علاقائی گروپوں میں گھومتی ہے اور اس بار ایشیاء بحر الکاہل گروپ کی باری تھی۔ اس گروپ میں کسی امیدوار پر اتفاق رائے نہیں سکا، اس لئے سارک کے دو ممالک کے درمیان مقابلہ ہوا ۔

افغانستان کے نامزد امید وار رسول ، جو کہ اب برطانیہ میں ملک کے سفیر ہیں ، نے ایک بیان میں کہا کہ جب افغانستان نے 2009 میں اپنی امیدواری پیش کی تو ریس میں شامل ہونے والا پہلا ملک بن گیا ۔

لیکن مالدیپ نے افغانستان کے غیر یقینی حالات کی وجہ سے سفارتی طور پر اس کو پیچھے چھوڑ دیا جہاں امکان ہے کہ طالبان امن معاہدے کے تحت بننے والی حکومت میں شامل ہوں گے جس پر بات چیت ابھی بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ مالدیپ کے پاس کبھی بھی اسمبلی کی صدارت نہیں تھی جب کہ افغانستان کے عبدالرحمٰن پزواک 1966-67 کے دوران یو این جی اے صدر رہے ہیں ۔

شاہد کے لئے ہندوستان کی حمایت پر اس وقت مہر لگ گئی تھی جب فروری میں ہندوستانی وزیر خارجہ کے مالدیپ دورے کے دوران جاری کردہ مشترکہ بیان میں مالدیپ کی حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا ۔

اس دورے کے دوران ایک نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ جیشنکر نے انہیں اس ملازمت کے لئے "سب سے موزوں " قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اس کو حقیقت بنانے کے لئے مل کر کام کریں گے۔ ہم واقعتا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے دوران آپ کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے "۔

افغانستان کے امیدوار رسول نے شاہد کی طرف سے جس "معزز" انداز میں مقابلہ کیا گیا ، اس کی تعریف کی - اس کا اعتراف گٹیرس نے بھی کیا۔ رسول 2014 میں افغانستان کے صدر کے لئے ناکام رہے اور 2019 میں دوبارہ ریس میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے اپنی نامزدگی واپس لے لی تھی ۔

یاد رہے کہ 193 رکنی اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی اس ان انتخابات میں کوئی بھی ووٹ غلط قرار نہیں پایا گیا ، لیکن دو ممالک ایران اور وسطی افریقی جمہوریہ کو اقوام متحدہ کے ضابطوں کے تحت رائے دہندگی سے روک دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی رکنیت کے واجبات ادا نہیں کیے تھے ۔

کوو ڈ 19 کے ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ملک سے صرف دو مندوبین کو اسمبلی ہال میں جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اسٹیج کے سامنے رکھے بیلٹ باکس میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لئے ممبران کو بلایا جاتا تھا ۔