فیس بک: جھوٹی اور سازشی نظریات کی پوسٹ انتہائی مقبول

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-09-2021
جعلی خبروں کا مرکز فیس بک
جعلی خبروں کا مرکز فیس بک

 

 

نیویارک:سوشل میڈیا پرسچائی سے زیادہ جھوٹ مقبول ہوتا ہے۔ یعنی کہ جھوٹ بک رہا ہے لیکن سچ کا کوئی خریدار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک افواہ تو تیزی سے پھیل جاتی ہے لیکن اس کی تردید کو کوئی اس طرح قبول نہیں کرتا جیسے کہ جعلی خبر کو کرتا ہے۔

دراصل ایک حالیہ مطالعے میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ 2020 کے امریکی انتخابات کے دوران فیس بک پر جعلی خبریں درست خبروں سے کہیں زیادہ مقبول تھیں۔یہی سچ ہے کہ جھوٹ گرم گرم جلیبی کی طرح بک رہا ہے۔

 واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیویارک یونیورسٹی اور فرانس کی یونیورسٹی گرینوبل الپس کے محققین کو پتہ چلا ہے کہ اگست 2020 سے جنوری 2021 تک غلط معلومات پھیلانے والوں کے آرٹیکلز کو درست خبروں کے طور پر چھ گنا زیادہ لائیکس اور شیئرز ملے اور ان پر بات چیت کی گئی۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈیٹا، ڈیموکریسی اور پولیٹکس کی سربراہ ڈاکٹر ربیکا ٹرومبل نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ یہ مطالعہ ’ان شواہد کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کرتا ہے جن کے مطابق کئی طرح کی تخفیف کی کوششوں کے باوجود غلط معلومات فیس بک پر باآسانی میسر اور پڑھی گئیں۔

  بہرحال سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق مکمل تصویر نہیں دکھاتی ہے۔

فیس بک کے ترجمان نے بتایا اس رپورٹ میں زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ پیجز کے مواد کو کس طرح پڑھتے ہیں، جو کہ فیس بک پر موجود تمام مواد کی بہت کم مقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔

‘  انہوں نے کہا فیس بک پر انگیجمنٹ کو اس بات سے الجھانا نہیں چاہیے کہ کتنے لوگ اسے دراصل فیس بک پر دیکھتے ہیں۔ جب آپ فیس بک پر سب سے زیادہ رسائی حاصل کرنے والے مواد کو دیکھتے ہیں، تو یہ بالکل ایسا نہیں جیسا کہ یہ مطالعہ تجویز کرتا ہے، جیسا کہ ہماری وسیع پیمانے پر دیکھے گئے مواد کی رپورٹ اور سوشل سائنس ون کونڈور ڈیٹا سیٹ کے مطالعے میں دکھایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ٹرومبل نے ٹوئٹر پر اس نکتے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کتنے لوگ اصل میں دیکھتے ہیں‘ کے اعداد و شمار (جسے امپریشنز کہا جاتا ہے) فیس بک خفیہ رکھتا ہے۔

’ٹوٹے ہوئے ریکارڈ کی طرح، فیس بک نے جواب دیا کہ مطالعہ انگیجمنٹ کو دیکھتا ہے ناکہ امپریشنز کو۔ یہ بات محققین کو ایک بار پھر کہنے کا موقع دیتی ہے کہ فیس بک امپریشنز کے اعداد و شمار فراہم نہیں کرتا۔‘ پروفیسر نے ٹوئٹر پر مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فیس بک کو بند یا پابند کیا جائے تاکہ وہ اعداد و شمار کو آزادانہ اور بیرونی جانچ پڑتال کے لیے دستیاب کریں۔

اس سال سوشل میڈیا پر غلط معلومات ایک ایسے وقت میں سنگین مسئلہ بن گیا ہے جب امریکہ اپنے تمام شہریوں کو کووڈ 19 کی ویکسین لگانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

 کرونا ویکسین شاٹس کے بارے میں جھوٹے اور سازشی نظریات کو فروغ دینے والی پوسٹس فیس بک پر انتہائی مقبول ثابت ہوئی ہیں اور ممکنہ طور پر ان پوسٹس نے کچھ لوگوں کو ویکیسن لگوانے سے روکنے میں کردار ادا کیا۔

 جولائی میں کراوڈ ٹینگل کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسین کے بارے میں سرفہرست 15 پرفارم کرنے والی فیس بک پوسٹوں میں سے نو نے جھوٹے یا خطرناک دعوؤں کو فروغ دیا اور اسے سینکڑوں ہزار بار شیئر کیا گیا۔

 اسی مہینے صدر جو بائیڈن کی غلط معلومات سے متعلق مایوسی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے یہ کہہ دیا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ’لوگوں کو مار رہی ہیں۔‘ (وہ بعد میں اپنے تبصرے سے پیچھے ہٹ گئے۔)

اس مطالعے میں دائیں بازو کے پبلشر بائیں بازو کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ غلط معلومات شائع کرتے پائے گئے، لیکن دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں کی غلط معلومات مشہور تھیں اور دونوں اطراف کے پبلشروں نے اسے شائع کرنے سے انگیجمنٹ میں بڑا فروغ حاصل کیا۔