برسلز
یورپی یونین انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بنا پر چین کے متعدد عہدیداران کو بلیک لسٹک کرنے پر غور کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کی جانب سے 1989 کے بعد چین پر پابندی لگانے کا یہ پہلا واقعہ ہے- اس سے پہلے یونین نے تیانمن اسکوائر کریک ڈاؤن کی وجہ سے چین پر اسلحے کی پابندی عاید کر دی تھی ۔
مغربی میڈیا کے مطابق یورپی یونین نے چین کے 4 عہدیداران اور ایک کمپنی پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ تاہم ان افراد اور کمپنی کے ناموں کا انکشاف 22 مارچ کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی باضابطہ منظوری کے بعد کیا جائے گا ۔ یورپی یونین کے ایک سفارتکار نے کہا کہ 'مبینہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور تشدد کے خلاف پابندی عائد کرنے کے اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں ۔
یورپی یونین کے سفارتکاروں نے بتایا کہ چینی عہدیداران پر ایغور مسلم اقلیت کے خلاف مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ایغورز کے حوالے سے یورپ، امریکا اور کینیڈا میں شدید تشویش کی عکاسی کرتا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے دوسرے تجارتی پارٹنر چین پر آخری بار پابندیاں جون 1989 میں لگائی تھی اور بیجنگ پر اسلحے کی پابندی عائد کردی تھی جو اب بھی برقرار ہے۔
سماجی کارکنان اور اقوام متحدہ کے ماہرین حقوق کا کہنا تھا کہ چین کے دور دراز مغربی خطے سنکیانگ میں کم از کم 10 لاکھ مسلمانوں کو کیمپوں میں مبینہ طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ سماجی کارکنان اور چند مغربی سیاستدان چین پر مسلمانوں پر مبینہ تشدد، جبری مشقت اور ان کی نس بندی کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ کینیڈا اور امریکا کے بعد ڈچ پارلیمنٹ نے بھی ایغور سے چین کے برتاؤ کو نسل کشی قرار دیا تھا، جسے چین نے مسترد کردیا تھا۔
یورپی یونین میں چینی مشن نے ٹوئٹر پر بلاک کے لیے چینی سفیر زانگ مِنگ کے نئی پابندیوں سے لکھا کہ 'بیجنگ اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گا'۔
Amb. Zhang on EU's possible sanctions: Sanctions are confrontational. We want dialogue, not confrontation. We ask the EU side to think twice. If some insist on confrontation, we will not back down, as we have no options other than fulfilling our responsibilities to the people. pic.twitter.com/durTRjhXQj
— Mission of China (@ChinaEUMission) March 17, 2021