ایلون مسک کی ’پارٹی آف امریکہ‘ دنیا بھر میں زیربحث

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 05-07-2025
ایلون مسک کی ’پارٹی آف امریکہ‘ دنیا بھر میں زیربحث
ایلون مسک کی ’پارٹی آف امریکہ‘ دنیا بھر میں زیربحث

 



واشنگٹن: دنیا کے معروف ارب پتی اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے متحرک کردار ایلون مسک نے ایک بار پھر امریکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کبھی قریبی تعلق رکھنے والے مسک اب کھل کر دو جماعتی نظام پر تنقید کر رہے ہیں اور ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی بات کر رہے ہیں، جس کا نام وہ "پارٹی آف امریکہ" رکھنے کی تجویز دے چکے ہیں۔

امریکہ میں صدیوں سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کا غلبہ رہا ہے، اور انہی دو جماعتوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش چلتی رہی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد اس نظام سے مایوس نظر آتی ہے، جو ان کی نظر میں حقیقی عوامی مسائل کے بجائے باہمی سیاسی لڑائیوں میں الجھا ہوا ہے۔ ایلون مسک، جو پہلے ٹرمپ کے حامی مانے جاتے تھے، بعد ازاں کئی معاملات پر ان سے اختلافات کا شکار ہو گئے۔

گزشتہ مہینوں میں ان دونوں کے درمیان تنقیدی بیانات کا تبادلہ بھی ہوا، حالانکہ کچھ عرصہ قبل وہ ایک سرکاری تقریب میں اکٹھے بھی نظر آئے تھے۔ یومِ آزادی (4 جولائی) کے موقع پر ایلون مسک نے اپنے پلیٹ فارم "ایکس" (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا یومِ آزادی ایک بہترین موقع ہے یہ سوال اٹھانے کا کہ کیا آپ دو جماعتی نظام ... جسے بعض لوگ ایک ہی جماعت سمجھتے ہیں ... سے آزادی چاہتے ہیں؟ کیا ہمیں ’پارٹی آف امریکہ‘ کی بنیاد رکھنی چاہیے؟

انہوں نے واضح کیا کہ اس نئی جماعت کا آغاز کسی بہت بڑے انتخابی منصوبے سے نہیں بلکہ ایک مرکوز حکمتِ عملی سے ہونا چاہیے، جس میں کانگریس کے صرف کچھ مخصوص حلقوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ مسک کا کہنا تھا کہ: اسے عملی جامہ پہنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوششوں کو مخصوص طور پر 2 یا 3 سینیٹ کی نشستوں اور 8 سے 10 ایوانِ نمائندگان کے حلقوں تک محدود رکھا جائے۔

چونکہ ووٹنگ کے فرق معمولی ہوتے ہیں، اس لیے چند نشستیں بھی اہم قانون سازی پر فیصلہ کن اثر ڈال سکتی ہیں، اور عوام کی اصل خواہشات کی ترجمانی ممکن ہو سکے گی۔ یہ بیان ایلون مسک کی اُس پچھلی سوچ کا تسلسل ہے، جب انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر کانگریس ڈونلڈ ٹرمپ کا ’عظیم اور خوبصورت منصوبہ‘ منظور کر لیتی ہے، تو وہ ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھیں گے۔

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایلون مسک کچھ عرصے تک ایک غیر روایتی سرکاری کردار میں بھی نظر آئے۔ مئی کے آخر تک وہ "وزارتِ کارکردگیِ حکومت کے علامتی سربراہ تھے، جس کا مقصد حکومتی اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری لانا تھا۔ ایلون مسک کی حالیہ تجویز ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب امریکہ میں صدارتی انتخابات کی فضا گرم ہو رہی ہے، اور ری پبلکن و ڈیموکریٹک قیادت پر عوامی اعتماد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ایسی صورت میں تیسری جماعت یا "نئی سیاست" کی بات عوام کے ایک حصے کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر ان طبقات کو جو نظام سے بیزار اور نئی قیادت کے خواہاں ہیں۔ ایلون مسک کا سیاسی میدان میں یہ ممکنہ قدم صرف ایک کاروباری شخصیت کی رائے نہیں، بلکہ ایک ایسے اثر و رسوخ رکھنے والے فرد کی آواز ہے جو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی سیاست میں ایک نیا راستہ کھولنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آیا یہ تجویز محض ایک خیال تک محدود رہتی ہے یا واقعی ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرتی ہے، جو امریکی نظام میں بنیادی تبدیلی لا سکے۔