میانمار میں جمہوریت پسند اور فوج آمنے سامنے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-02-2021
جمہوریت پسندوں کے جلوس
جمہوریت پسندوں کے جلوس

 

 

ینگون۔ میانمار میں ایک اور فوجی بغاوت ہوچکی ہے۔ ملک میں فوج اور جمہوریت پسند آمنے سامنے ہیں۔یاد رہے کہ پچھلے ہفتے ہی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے آنگ سان سوچی سمیت کئی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا تھا تاہم ملک بھر میں اساتذہ اور طلبہ سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد فوجی بغاوت کے خلاف بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکل آئے اور آمریت کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی۔مظاہرین نے فوج کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ انہیں عوامی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔میانمار کے مرکزی شہر ینگون میں ایک مظاہرے میں شہریوں نے سرخ پرچم کے ساتھ مارچ کیا اور معزول رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری اظہار کی۔

ریلی کی وجہ سے مرکزی شاہراہوں کو بند کردیا گیااور لوگوں اپنی گاڑیاں ایک طرف پارک کرکے مظاہرین کے ہمراہ شامل ہوگئے۔میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے گئے۔مظاہرین میں طلبہ، انجینئر اور کسان شامل تھے۔

یہ مظاہرہ ایک فوجی ترجمان کے ان دعوؤں کے بعد ہوا کہ 'مظاہرے کم ہوجائیں گے اور ملک کی 53 ملین آبادی میں سے 40 ملین افراد نے اقتدار پر قبضے کی حمایت کی'۔ینگون میں احتجاج کرنے والوں میں شامل ایک ریٹائرڈ استاد نے بتایا 'میں آنگ سان سوچی اور دیگر قائدین کی فوری رہائی چاہتا ہوں کیونکہ ہم اپنی جمہوریت واپس چاہتے ہیں

'نوآبادیاتی دور کی ایک وسیع و عریض عمارت سیکریٹریٹ کے باہر ایک ہزار یونیورسٹی عملہ اور طلبہ جمع تھے۔میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ تھامس اینڈریوز نے کہا کہ ریلیوں سے قبل انہیں دوسرے علاقوں سے فوجیوں کو ینگون پہنچائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

میانمار کے فوجی جرنیلوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 75سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔