سرحد پارافغانستان سے دہشت گردی پر نظر ہے۔ بلاول بھٹو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-05-2022
سرحد پارافغانستان سے دہشت گردی پر نظر ہے۔ بلاول بھٹو
سرحد پارافغانستان سے دہشت گردی پر نظر ہے۔ بلاول بھٹو

 


واشنگٹن : پاکستان میں نئی حکومت کے نئے وزیر خارجہ  بلاول بھٹو زرداری امریتکہ کے دورے پر ہیں ،وہ  پاکستان سے امریکہ تک میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین پر سرحد پار سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

امریکہ کے دورے پر موجود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ’سی این این‘ کی کرسٹین امان پور کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ’ہم نہ صرف اس صورت حال پر نظر رکھتے رہتے ہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی طرف سے کام کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت اپنے بین الاقوامی عزم پر قائم ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کابل میں موجودہ انتظامیہ کو قبول کرنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا پڑے گا؟

تو بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’ہم انگیج کرنے کی وکالت کرتے رہتے ہیں، خاص طور پر افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کی روشنی میں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام آباد نے خواتین کو حقوق دینے سے متعلق افغان طالبان سے بات کی ہے تو وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ مغرب کا مسئلہ نہیں ہے۔ ’میں خواتین کے حقوق یا تعلیم کے حقوق کو اسلام میں ہمیں دیئے گئے حقوق کے طور پر دیکھتا ہوں۔

ہم اس بات پر زور دیں گے کہ طالبان اپنے بین الاقوامی وعدوں پر عمل کریں اور افغانستان کی خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ کابل میں ہونے والی پیش رفت کا پاکستانی عوام کی زندگیوں پر براہ راست اثر پڑا ہے۔ ’ہمیں ترجیح دینی چاہیے، انسانی بحران کو کم کرنا چاہیے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی معاشی تباہی نہ ہو اور طالبان حکومت کو بین الاقوامی وعدوں پر قائم رکھیں۔ یہ پاکستان نہیں بلکہ امریکہ تھا جس کے کابل پر قبضے سے قبل طالبان حکومت سے براہ راست رابطہ تھا۔ پاکستان اور عالمی برادری کا خیال ہے کہ اگر ہم افغانستان کے لوگوں کو ایک بار پھر ترک کر دیتے ہیں تو یہ ہمارے کسی بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔‘