نئی دہلی: کورونا کا نام آتا ہے تو دنیا کی نظر خود بخود چین کی جانب اٹھ جاتی ہے،جہاں ووہان میں ایسا کچھ ہوا تھا جس کی سزا آج تک دنیا بھگت رہی ہے۔ چین نے اس سلسلے میں با ر بار تردید کی اور کئی عالمی اداروں نے اسے کلین چٹ دی مگر یہ ایک پراسرار معاملہ بنا رہا ہے۔ دنیا کو اس بات پر یقین ہے کہ جو ہوا ہے وہ ووہان کی دین ہے۔اب ایک بار پھر ایک خبر سامنے ٓائی ہے۔امریکی انٹیلی جنس کو پتہ چلا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا شروع ہونے سے پہلے چینی شہر ووہان کی لیبارٹری میں کام کرنے والے تین ریسرچرز اتنے بیمار ہوئے کہ انہیں ہسپتال داخل کروایا گیا۔یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما اس وبا کے سارے عرصے میں چین کی ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی سے وائرس 'وائرس کے لیک ہونے' کے نظریے پر زور دیتے رہے ہیں۔
کیا ہے دعوی
اس بار جو خبر آئی ہے وہ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی ہے۔ جس کے مطابق امریکہ کے سابق اور موجود حکام نومبر 2019 میں چینی لیبارٹری کے سائنس دانوں کے بیماری میں مبتلا ہونے کے معاملے پر منقسم رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس معاملے میں خفیہ معلومات امریکہ کے ایک بین الاقوامی پارٹنر سے ملیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عہدے دار نے اخبار کو بتایا کہ خفیہ معلومات اس سے زیادہ جاندار ہیں۔اندر کی خبر رکھنے والے عہدے دار کے بقول: ’ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ مختلف ذرائع سے ملنے والی اعلیٰ معیار کی معلومات ہیں۔’یہ معلومات بالکل واضح ہیں۔ان سے جو بات آپ کو پتہ نہیں چلتی وہ یہ کہ لیبارٹری کے عملے کی بیماری کی درست وجہ کیا تھی۔‘
نومبر2019 سے شروع ہوگیا تھا کورونا
ماہرین کہتے ہیں کہ اندازے کے مطابق نومبر2019 وہ مہینہ ہے جب لوگ ووہان میں وائرس سے متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے جبکہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے کیس کی تصدیق آٹھ نومبر، 2019 کو ہوئی تھی۔ووہان انسٹی ٹیوٹ نے، جو خاص طور پر چمگادڑوں پر تحقیق کرتا ہے، عالمی وبا کے دوران اپنا ڈیٹا، لیب ریکارڈز اور حفاظتی انتظامات کی تفصیل عام نہیں کی۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر انتھنی فاؤچی کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ قائل نہیں‘ کہ کووڈ19 کی بیماری قدرتی تھی۔ انہوں نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات پر زور دیا۔حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی امریکی ویب سائٹ ’پولیٹی فیکٹ‘ سے تعلق رکھنے والی کیٹی سینڈرز نے ڈاکٹر فاؤچی سے پوچھا ہے کہ آیا انہیں ’اب بھی یقین ہے کہ یہ قدرتی طور پروجود میں آئی۔
ڈاکٹر فاؤچی نے جواب دیا: ’حقیقت میں ایسا نہیں۔ میں اس بارے میں قائل نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت تک تحقیقات جاری رکھنی چاہیے کہ چین میں کیا ہو رہا تھا جب تک ہم اپنی وہ بہترین صلاحیت سامنے لانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جس کی مدد سے جانا جا سکے کہ کیا ہوا تھا۔‘ ڈاکٹر فاؤچی نے، جو امریکہ کے الرجی اور متعدی بیماریوں سے متعلق ادارے(این آئی اے آئی ڈی) کے ڈائریکٹر ہیں، اس سے پہلے اس ماہ یہ تبصرہ کیا تھا لیکن اس وقت ان کی بات بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں کیا گئی تھی۔
ڈاکٹر فاؤچی نے مزید کہا: ’یقینی طور پر جن لوگوں نے اس معاملے میں چھان بین کی ان کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ وائرس جانوروں سے نکلا ہو جس نے بعد میں انسانوں کو متاثر کیا لیکن معاملہ دوسرا بھی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں ہمیں پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔’اس لیے آپ جانتے ہیں کہ یہی وہ وجہ ہے جس کی بنیاد پر میں مکمل طور پر ایسی کسی بھی تحقیقات کے حق میں ہوں جو وائرس کے ماخذ کو دیکھے۔
بائیڈن انتظامیہ نے امریکی اخبار کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن اس نے کہا کہ تمام قابل اعتماد نظریات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔