اویغور مسلمانوں کے جذبات جاننے کے لیے کیا کررہا ہے چین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
چین میں کیا ہورہا ہے ؟
چین میں کیا ہورہا ہے ؟

 

 

 آواز دی وائس : نئی دہلی

چین نے سنکیانگ میں کس طرح ایغور مسلمانوں کی زندگی کو تنگ کیا ہے اس کی ہر دن ایک نہ ایک مثال اور نمونہ مل جاتا ہے۔چین نےایغور مسلمانوں کی سماجی ،سیاسی اور سیکیورٹی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ قدم قدم پر پابندیاں ۔ قدم قدم پر مظالم۔ مسجد سے گھر تک نگرانی ۔ اب ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے ۔چین سب کچھ کرنے کے بعد بھی مطمین نہیں ہے ،اس کو ایغور مسلمانوں پر یقین نہیں ہے ۔اس لیے اب ایغور مسلمانوں کے دل و دماغ کو پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جی ہاں!ایغور مسلمان کیا سوچ رہا ہے اب چین اس کی کھوج میں جٹ گیا ہے۔

 کس نے کیا انکشاف

 در اصل ایک سافٹ ویئر انجینیئر نے انکشاف کیا ہے کہ چین سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے جذبات جاننے کے لیے ان پر چہرہ پہچاننے اور مصنوعی ذہانت رکھنے والے کیمرے استعمال کر رہا ہے۔سافٹ ویئر انجینیئر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے پرگرام پینو راما سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سنکیانگ کے پولیس ا سٹیشنز میں یہ نظام نصب کیے ہیں۔

علیحدگی پسندی کا بہانہ

چین نے ہمیشہ موقف اپنایا ہے کہ اس علاقے کی نگرانی ان علیحدگی پسندوں پر نظر رکھنے کے لیے ضروری ہے جو اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور ان کے حملوں میں سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔سنکیانگ میں نسلی اویغور اقلیت سے تعلق رکھنے والے کم سے کم ایک کروڑ 20 لاکھ افراد رہتے ہیں جن کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس علاقے میں اویغور افراد کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور ان سے برا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔چین نے اس علاقے میں ’تعلیمی سینٹرز‘ بھی قائم کیے ہیں جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بد سلوکی، ریپ اور تشدد کی رپورٹس کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔

 دنیا دنگ ہے

ان انکشافات نے کئی افراد کو حیران کر دیا ہے۔ تاہم لندن میں چینی سفارت خانے نے موقف اپنایا ہے کہ ’تمام قومیتوں کے سیاسی اور سماجی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے‘ اور چین میں ’تمام افراد کسی نسلی تقسیم کے بغیر بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک مستحکم اور پر امن زندگی گزارتے ہیں جس میں شخصی آزادی پر کوئی قدغن نہیں۔ ‘ انکشاف کرنے والے سافٹ ویئر انجینیئر اپنے تحفظ کی وجہ سے فکر مند ہیں اور انہوں نے اس کمپنی کا نام بھی نہیں بتایا جس کے لیے وہ کام کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسے پانچ اویغور افراد کی تصاویر دکھائیںں جن کے حوالے سے ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ان پر چہرہ پہچاننے والے نظام کا تجربہ کیا۔ انہوں نے بتایاچینی حکومت اویغور افراد کو تجرباتی بنیادوں پر ویسے ہی استعمال کرتی ہے جیسے لیبارٹریز میں چوہوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘

’ہم جذبات جانچنے والا کیمرہ انسان سے تین میٹر دور نصب کرتے ہیں۔ یہ جھوٹ پکڑنے والے آلے جیسا ہی ہے لیکن زیادہ جدید ٹیکنالوجی رکھتا ہے۔‘ انہوں نے صوبہ سنکیانگ کے پولیس اسٹیشنز میں کیمرے نصب کرنے میں اپنے کردار کے بارے میں بھی بتایا۔ ان کے مطابق سنکیانگ میں پولیس اہلکار باندھنے والی کرسیاں استعمال کرتے ہیں جن میں انسان کی کلائیاں اور ٹخنے دھاتی بیٹریوں سے بندھے ہوتے ہیں۔

انہوں نے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز کے بارے میں بھی بتایا جو ’انسان کی جلد اور چہرے کے ہر لمحہ بدلتے تاثرات ‘ کی پہچان اور ان کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ ان کے دعوؤں کے مطابق یہ سافٹ ویئر ایک پائی چارٹ بناتا ہے جس میں بے چینی یا منفی رویے کی نشاندہی سرخ رنگ میں کی جاتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ بھی دنگ

ہیومن رائٹس واچ کی چین کے لیے ڈائریکٹر صوفی رچرڈسن، جنہوں نے مذکورہ سافٹ ویئر انجینیئر کے فراہم کردہ شواہد دیکھے ہیں، کا کہنا ہے: ’یہ حیران کن مواد ہے۔ یہ ایسا نہیں کہ لوگوں کو صرف ایک پائی چارٹ تک محدود کیا جا رہا ہے بلکہ لوگوں کے ایک جابرانہ ماحول میں شدید دباؤ کے تحت بے چین رہنے کو ان کے اعتراف کے طور لیا جا رہا ہے جو بہت پریشان کن ہے۔‘ جولائی 2018 میں چینی کمپنی ہواوے اور چائنا اکیڈمی آف سائنسز نے چہرہ پہچاننے کے ایک سافٹ ویئر کا پیٹنٹ فائل کیا تھا جو انسانوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہواوے کا کہنا تھا کہ وہ ’کسی بھی برادری کے افراد پر ظلم یا تعصب کے لیے کسی ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت نہیں کرتی‘ اور وہ جہاں بھی کام کرتی ہے ’حکومت سے آزادانہ‘ طور پر کام کرتی ہے۔