سنکیانگ : کیسے اور کیوں غائب ہورہی ہیں مساجد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-05-2021
چین کی مسلم شناخت ختم کرنے کی کوشش  کا ایک نمونہ
چین کی مسلم شناخت ختم کرنے کی کوشش کا ایک نمونہ

 

 

چین کی اکلوتی مسلم اکثریتی ریاست سنکیانگ کے انتہائی مغربی خطے میں واقع شہر قرہ کی جامع مسجد ، اونچی دیواروں اور کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کے مواد کے پیچھے چھپی ہوئی ہے اور راہگیروں کے لئے اس کے مذہبی مقام ہونے کا کوئی نشان نہیں چھوڑا گیا ہے۔ اپریل کے آخر میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران ، ایغور قبیلے کی دو خواتین ایک نگرانی والے کیمرے کے نیچے ایک چھوٹے سے جال کے پیچھے بیٹھی تھیں جو کبھی اس شہر کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہوا کرتی تھی ۔ اس کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس مقام پر کبھی مساجد واقع تھی ۔

عمارت کے چاروں کونوں پر مینار جو کبھی 2019 میں سیٹلائٹ کی تصاویر میں نظر آتے تھے اب غایب ہیں ۔ جہاں کبھی مسجد کا مرکزی گنبد ہوا کرتا تھا، وہاں ایک بڑے نیلے رنگ کا میٹل باکس براجمان ہے ۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ جب 2019 میں سیٹلائٹ سے تصاویر لی گئیں تھیں اس وقت میٹل باکس کی جگہ پر کوئی عبادت گاہ تھی یا نہیں ۔

حالیہ مہینوں میں چین نے ریاستی میڈیا کے پروپگنڈے اور حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں افسران کے دوروں کے ذریعہ اپنی پروپگنڈہ مہم تیز کردی ہے تاکہ محققین ، انسانی حقوق کے گروپوں اور سنکیانگ کے سابق باشندوں کی تنقید کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ واضح رہے کہ محققین ، انسانی حقوق کے گروپوں اور سنکیانگ کے سابق باشندوں کا الزام ہے کہ اس خطے میں مسلم ایغور کے خلاف کریک ڈاؤن میں ہزاروں مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

سنکیانگ اور بیجنگ کے عہدیداروں نے بیجنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ کسی بھی مذہبی مقامات کو زبردستی تباہ نہیں کیا گیا ہے بیشتر عہدیداروں نے نامہ نگاروں کو علاقے کا دورہ کرنے اور رپورٹ تیار کرنے کی دعوت بھی دی ۔ سنکیانگ حکومت کے ترجمان الیجان عنایت نے گذشتہ سال کے آخر میں مساجد کے بارے میں کہا کہ ان تمام الزامات کے بر خلاف ہم نے ان کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے بدھ کے روز کہا کہ کچھ مساجد کو توڑ دیا گیا ہے ، جبکہ دیگر کو دیہی تعمیر نو کے لئے اپ گریڈ کیا گیا ہے اور اس کی توسیع بھی کی گئی ہے۔ مسلمان گھروں اور مساجد میں بلا روک ٹوک اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ اس علاقے میں آنے والے صحافیوں پر پابندیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر ہوا نے کہا کہ رپورٹرز کو "چینی عوام کا اعتماد جیتنے" اور معروضی رپورٹ تیار کے لئے سخت کوشش کرنی پڑی ۔ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی مساجد اور مذہبی آزادی اور زمینی حقائق کے تحفظ کے لئے چلائی جانے والی مہم کے مابین ایک فرق ہے۔ مزید یہ کہ جن مساجد کا دورہ کیا گیا ان میں سے زیادہ تر جزوی یا مکمل طور پر منہدم کردی گئیں ہیں ۔

چین نے بار بار کہا ہے کہ سنکیانگ کو علیحدگی پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے سنگین خطرہ لاحق ہے جو حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ایغوروں اور چین کے سب سے بڑے نسلی گروہ ہان کے مابین تناؤ کو ہوا دیتے ہیں۔ ایک بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جس میں مذہبی طرز عمل پر پابندیوں کی ایک مہم بھی شامل ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ سن 2017 سے ایک ملین سے زیادہ ایغوروں اور دیگر مسلمانوں کا زبردستی مائنڈ واش کیا جانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

چین نے ابتدائی طور پر حراستی کیمپوں میں لوگوں کو نظربند کئے جانے کے الزام سے انکار کیا تھا لیکن اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو عوام کی پیشہ ورانہ ہنر سکھانے کے لئے تربیتی مراکز ہیں ۔

یاد رہے کہ حکومت کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں 20،000 سے زیادہ مساجد موجود ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی تفصیلی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

کچھ مساجد میں کے باہر یہ سائن بورڈ نسب ہے کہ اجتماعی تقاریب کا اندراج ضروری ہے جب کہ مسجد کی مذھبی تقریب میں علاقے سے باہر کے شہریوں ، غیر ملکیوں اور 18 سال سے کم عمر افراد کے داخلے پر پابندی ہے۔

مساجد میں نگرانی کیمرے کے ساتھ ساتھ چینی جھنڈے اور پروپیگنڈے کے سائن بورڈ نظر آتے ہیں جس میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وفاداری کا اعلان ہوتا ہے ۔ دورہ کرنے والے نامہ نگاروں کے قریب ہمیشہ ہی سادہ لباس میں فوجی اہلکار بھی رہتے تھے ج فوٹو لینے سے باز رکھتے ہیں ۔ ایک ہان خاتون جو چھ سال قبل وسطی چین سے یہاں آئی ہیں ، کا کہنا ہے کہ مسلمان اگر نماز ادا کرنا چاہتے ہیں وہ گھر میں ایسا کرسکتے ہیں۔ اس عورت نے مسجد میں نماز پڑھنے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب اس طرح کے مسلمان یہاں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سنکیانگ میں زندگی خوبصورت ہے۔

ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہاں نامہ نگاروں پر آنے والے خرچے کی ادائیگی حکومت کرتی ہے۔ مزید یہ کہ اسلامی رسم و رواج کے مطابق لوگ دن میں پانچ بار نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ایک مسجد کے بارے میں سنکیانگ کی حکومت نے بتایا کہ یہ 170 سال سے زیادہ پرانی ہے اور ساتھ ہی یہ ان چار میں سے ایک مقام جس کو ثقافتی ورثے کی حیثیت دی گئی ہے جس کے لئے مرکزی حکومت نے تزئین و آرائش کے لئے فنڈز مختص کئے ہیں۔

گرتے ہوئے مینار

دارالحکومت ار مقی سے 40 کلومیٹر مغرب میں واقع چانگجی شہر کی زنک مسجد کے سبز اور سرخ مینار ویران عمارت کے صحن میں اڑتے ہوئے چینی جھنڈے کے نیچے ٹوٹے ہوئے پڑے تھے ۔ مغربی میڈیا کے نامہ نگاروں کے مطابق چانگجی شہر میں 10 مساجد کی سیٹلائٹ امیجری کا تجزیہ کیا گیا اور ان میں سے 6 مسجدوں کا دورہ کیا گیا ۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپریل 2018 کے بعد دو ماہ کی مدت کے دوران کل 31 میناروں اور 12 سبز یا سونے کے گنبدوں کو ہٹا یا گیا ہے ۔ متعدد مساجد میں اسلامی طرز تعمیر کو چینی طرز کی چھت میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ ان میں چانگجی کی تیانی روڈ مسجد بھی شامل ہے ، جن کے سونے کے گنبد اور میناروں کو 2018 میں عوامی سطح پر دستیاب سیٹلائٹ کی تصاویر کے مطابق ہٹا دیا گیا ہے ۔