غزہ -اسرائیل کیمسلسل بمباری کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں نے اسرائیل کی غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے اعلان پر راحت اور خوشی کا اظہار کیا۔جیسے ہی یہ خبر محاصرے میں رہنے والے علاقے میں پھیلی، جنوبی غزہ کے خان یونس کے رہائشی سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا، اس امید کے ساتھ کہ یہ وہ پہلا حقیقی وقفہ ثابت ہوگا جب اسرائیلی حملوں سے کچھ عارضی ریلیف ملے، کیونکہ چھ ماہ قبل ایک نازک معاہدہ اسرائیل کی جانب سے توڑا گیا تھا۔
غزہ کے رہائشی عبدالماجد عبد ربّو نے کہا کہ اس جنگ بندی کے لیے خدا کا شکر ہے، خونریزی اور قتل ختم ہو گیا … غزہ کا ہر حصہ خوش ہے۔رہائشی خالد شاعت نے مزید کہا کہ یہ وہ لمحات ہیں جنہیں تاریخی سمجھا جاتا ہے اور فلسطینی شہری طویل عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔ جو خوشی ہم نے تھوڑی دیر پہلے سڑکوں پر دیکھی، وہ قتل عام، خونریزی اور نسل کشی سے ریلیف کا احساس تھی۔
🔻
— The truth in Gaza🇵🇸 (@Gaza7o) October 9, 2025
The joy of victory is a celebration every heart longs for. It overwhelms the soul with happiness beyond words — this is the promised triumph.#IsraeliNewNazism@Gaza7o pic.twitter.com/mszV2imfiT
الجزیرہ کے غزہ سے نمائندے ہانی محمود نے کہا کہ اس محاصرے والے علاقے کی مصیبت زدہ آبادی میں سب نے اجتماعی طور پر سانس کی راحت محسوس کی ہے۔ "یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور ذاتی طور پر بھی، یہ بہت بڑی راحت ہے۔مہینوں تک اسرائیلی نافذ کردہ قحط کے بعد، تمام نظریں اس بات پر ہیں کہ کب اہم امدادی سامان، خوراک اور طبی ساز و سامان گزشتہ سال کے مختصر جنگ بندی کی طرح بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جا سکے گا۔عالمی ادارہ صحت(WHO) کے ڈائریکٹر جنرل تدروس ادهانوم گبریسس نے کہا کہ یہ ادارہ "غزہ بھر کے مریضوں کی شدید صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کام کو بڑھانے کے لیے تیار ہے … بہترین دوا امن ہے۔
Celebrations in Gaza today. I haven't seen them this happy since the war started. A blessed day. (For context: they're cheering the Hamas military.) pic.twitter.com/qb37rbH79C
— Eylon Levy (@EylonALevy) October 9, 2025
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بدھ کی رات اعلان کردہ جنگ بندی کے معاہدے میں دو سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے وسیع منصوبے کے پہلے مرحلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت غزہ میں موجود باقی اسرائیلی قیدیوں کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا، جبکہ اسرائیلی افواج "متفقہ لائن" تک پیچھے ہٹیں گی، جیسا کہ ٹرمپ نے بتایا۔ ثالث قطر نے کہا کہ مزید تفصیلات بعد میں اعلان کی جائیں گی۔
غزہ کے رہائشی نبیل عواد اللہ نے امید ظاہر کی کہ یہ جنگ بندی منصوبہ باقی فلسطینیوں کی حفاظت کرے گا۔عواد اللہ نے کہاکہ فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ہمیں اس جنگ بندی معاہدے سے خوش ہونا چاہیے۔ یہ بہترین ہے۔ایک اور رہائشی ابو ہیشم نے کہا کہ اگرچہ ابتدائی معاہدہ ہمارے ذہنوں کو سکون پہنچاتا ہے، لوگ اسرائیلی حکومت پر اعتماد نہیں کرتے اور پہلے مرحلے کے بعد کے دور کے بارے میں خوفزدہ ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لیے ایسی حفاظتی ضمانتیں ہونی چاہئیں جو صرف اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے الفاظ تک محدود نہ ہوں۔
بدھ کی رات، الجزیرہ کے محمود نے کہا کہ فلسطینی ایک غیر معمولی پرسکون رات میں سکون سے بس گئے، کیونکہ فضائی بمباری جو معمول بن چکی تھی، بڑی حد تک کم ہو گئی تھی۔تاہم، غزہ کی سول ڈیفنس نے اعلان کیا کہ معاہدے کے بعد بھی کئی حملے جاری رہے، جن میں غزہ سٹی میں "شدید فضائی حملوں کی ایک سیریز" شامل تھی۔ غزہ شہر میں اپنے پناہ گزین کیمپ سے فون پر روتے ہوئے بے گھر فلسطینی احمد شہیبیر نے معاہدے کی خبر سنتے ہی کہا۔ یہ ایک عظیم دن ہے، بے پناہ خوشی کا لمحہ ہے-مجھے یقین نہیں آ رہا۔ خان یونس کے رہائشی ایمن صابر نے “اللہ اکبر” کے نعرے لگانے لگے۔
ادھر اسرائیل میں، جہاں جنگ کے جاری رہنے کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے، عوام بھی جنگ بندی کی خبر سن کر سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کیا۔ بہت سے لوگ، جن میں قیدیوں کے رشتہ دار اور حامی شامل تھے، تل ابیب کے "ہوسٹیج اسکوائر" میں جمع ہوئے۔اسرائیلی قیدی متان زنگاؤکر کی والدہ، عینا زنگاؤکر نے اسرائیلی نشریاتی ادارے "آروٹس شیوا" سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم بہت پُرجوش ہیں، خوشی کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے، یہ مکمل خوشی کا لمحہ ہے۔
یہ خبر اسرائیل میں ان خاندانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی جو گزشتہ دو برس سے اپنے اُن عزیزوں کی رہائی کے لیے دعا گو اور جدوجہد میں مصروف تھے جنہیں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنایا تھا۔
تل ابیب کی سڑکوں پر جب یہ خبر پہنچی تو آنسوؤں سے لبریز اہل خانہ نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، خوشی سے نعرے لگائے، اور بعض نے شیمپین کھول کر جشن منایا۔ ماتان گھر آ رہا ہے۔ یہ وہ آنسو ہیں جن کے لیے میں نے دعا کی تھی۔ ایک اسرائیلی مغوی کی والدہ نے ہارٹز اخبار کے مطابق کہا۔شہر کے ہاسٹیج اسکوائر میں جمع کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ٹرمپ کو اس معاہدے میں کردار ادا کرنے پر تسلیم کیا جائے، اور نعرہ لگایا ٹرمپ کو نوبیل انعام دیا جائے۔ وہ صبح سویرے تک جشن مناتے رہے۔
ایملی دماری، جو ایک برطانوی نژاد اسرائیلی ہیں اور جنہیں حماس نے ایک سال سے زائد عرصے تک قید رکھنے کے بعد جنوری میں رہا کیا تھا، نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ خوشی مناتی نظر آئیں، جن میں ایک اور سابق مغوی، رومی گونن، بھی شامل تھیں۔ویڈیو میں گروپ کو ایک دوسرے کو گلے لگاتے، کمرے میں رقص کرتے اور “لَخائیم” (یعنی زندگی کے نام”) کا نعرہ لگاتے دیکھا جا سکتا تھا۔معاہدے کے تحت حماس نے اعلان کیا کہ وہ بیس زندہ مغویوں کو ممکنہ طور پر اسی ہفتے کے اختتام تک رہا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ معاہدہ سائن ہونے کے 72 گھنٹے کے اندر متوقع ہے، جو جمعرات کو دستخط ہونے کی امید ہے۔
یہ خبر اسرائیل میں ان خاندانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی جو گزشتہ دو برس سے اپنے اُن عزیزوں کی رہائی کے لیے دعا گو اور جدوجہد میں مصروف تھے جنہیں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنایا تھا۔
تل ابیب کی سڑکوں پر جب یہ خبر پہنچی تو آنسوؤں سے لبریز اہل خانہ نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، خوشی سے نعرے لگائے، اور بعض نے شیمپین کھول کر جشن منایا۔ ماتان گھر آ رہا ہے۔ یہ وہ آنسو ہیں جن کے لیے میں نے دعا کی تھی۔ ایک اسرائیلی مغوی کی والدہ نے ہارٹز اخبار کے مطابق کہا۔شہر کے ہاسٹیج اسکوائر میں جمع کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ٹرمپ کو اس معاہدے میں کردار ادا کرنے پر تسلیم کیا جائے، اور نعرہ لگایا ٹرمپ کو نوبیل انعام دیا جائے۔ وہ صبح سویرے تک جشن مناتے رہے۔
ایملی دماری، جو ایک برطانوی نژاد اسرائیلی ہیں اور جنہیں حماس نے ایک سال سے زائد عرصے تک قید رکھنے کے بعد جنوری میں رہا کیا تھا، نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ خوشی مناتی نظر آئیں، جن میں ایک اور سابق مغوی، رومی گونن، بھی شامل تھیں۔ویڈیو میں گروپ کو ایک دوسرے کو گلے لگاتے، کمرے میں رقص کرتے اور “لَخائیم” (یعنی زندگی کے نام”) کا نعرہ لگاتے دیکھا جا سکتا تھا۔معاہدے کے تحت حماس نے اعلان کیا کہ وہ بیس زندہ مغویوں کو ممکنہ طور پر اسی ہفتے کے اختتام تک رہا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ معاہدہ سائن ہونے کے 72 گھنٹے کے اندر متوقع ہے، جو جمعرات کو دستخط ہونے کی امید ہے۔