کیا افغان جنگ نے نوجوانوں میں بانجھ پن بڑھا دیا ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-09-2021
کیا افغان جنگ نے نوجوانوں میں بانجھ پن بڑھا دیا ہے؟
کیا افغان جنگ نے نوجوانوں میں بانجھ پن بڑھا دیا ہے؟

 

 

آواز دی وائس، ایجنسی

افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے مختلف نتائج سامنے آ رہے ہیں، اس سلسلےمیں ایک تشویشناک بات وہاں کے نوجوانوں میں بانجھ پن کا پایا جانا ہے۔ 

پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد عاصم خان پاکستان میں مردوں کے بانجھ پن کے چند اعلٰی تربیت یافتہ ماہرین میں سے ہیں۔

سنہ 2019 میں جب وہ امریکہ سے پاکستان واپس آئے تو ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں مرد تولیدی بیماریوں کا علاج کروانے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں لہٰذا اس کی آگاہی کے لیے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اسلام آباد کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں ’مردوں کے بانجھ پن‘ کا خصوصی شعبہ قائم کیا جو اپنی طرز کے اولین کلینکس میں سے تھا اور اس بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینے لگے۔

لیکن کچھ ہی عرصے میں انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں بہت سارے لوگ ان مسائل کا علاج کروانے کے لیے مناسب ماہرین کی تلاش میں ہیں۔

ان کے کلینک میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی اور اب بھی اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم ایک اور بات جو ان کے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا، وزیرستان ایجنسی اور افغانستان سے تھی۔

اس پہلو نے انہیں چونکا دیا اور انہوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ ایسا کیوں ہے؟ اپنے ذہن میں موجود اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے انہوں نے اپنے مریضوں سے انٹرویوز شروع کیے اور ان کے مسائل کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں پوچھا۔

ان کے مریضوں کی بیماریوں کی جو وجہ سب سے زیادہ مشترک تھی، وہ ان کے رہنے کا محل وقوع تھا۔ وہ سبھی لوگ ایسے علاقوں کے رہائشی تھے جہاں امن و امان کی صورت حال مخدوش تھی اور آئے روز بم دھماکے، ڈرون حملے اور جنگ ہوتی رہتی تھی۔

ڈاکٹر محمد عاصم خان نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جو ابتدائی طور پر ایک بات سمجھ آتی ہے وہ ماحولیات کا اثر ہے، جو لوگ ہمیں بتاتے ہیں، خیبر پختوںخوا اور کابل کے لوگ، دھماکے وغیرہ۔‘

’جنگ کا جو ماحول ہوتا ہے وہ بانجھ پن بڑھا رہا ہے نہ صرف ذہنی طور پر آپ کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ہارمونز اور سپرمز کو بھی متاثر کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر عاصم خان نے بتایا کہ ’جنگی ماحول کئی طرح سے تولیدی صحت کو متاثر کرتا ہے۔‘ ’سب سے پہلے نفسیاتی مسئلہ ہے، جو لوگ ذہنی صدمے سے گزرتے ہیں، تو یقینی طور پر نفسیات کا بانجھ پن سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے، خاص کر خواتین۔‘

ان کے مطابق ’اگر خواتین پرسکون ماحول میں حاملہ نہ ہو سکیں تو پھر وہ نہیں ہو سکتیں، اسی طرح مردوں کے ساتھ ہے، کہ آپ پر ذہنی صدمہ اثر کرتا ہے۔‘ ’پھر لوکل ٹراما، جو لوگ زخمی ہوئے، وہ کیسے زخمی ہوئے، جسم کے کون سے حصے کو نقصان پہنچا، کتنا نقصان پہنچایا، تولیدی مادہ لے جانے والی ٹیوبز کو نقصان پہنچایا؟‘

انہوں ںے بتایا کہ ’تیسرا یہ کہ کون سے کیمیکلز تھے، جو دھماکے کا حصہ تھے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے سپرمز (تولیدی مادے) پر، یقینی طور پر اس سے سپرمز بننے کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ ’جنگوں کے دوران اگر ریڈیو ایکٹیو مواد استعمال ہوا ہے تو یہ یقینی طور پر تولیدی صحت کو متاثر کرتا ہے۔‘ ’دھماکے ماحولیاتی آلودگی بڑھاتے ہیں، ریڈی ایشن، ریڈیو ایکٹیو میٹیریل اگر استعمال ہوا ہو، تو یہ بالکل متاثر کرتا ہے، اس مقام کے لوگوں کے مادہ تولید کی زرخیزی کو۔‘ ’جب دھماکہ ہوتا ہے، تو جو مواد اس میں استعمال ہوتا ہے اس پر منحصر ہے کہ اس نے مقامی آبادی کی تولیدی صحت کو کیسے متاثر کیا ہے۔ ایک کیمیکل ہے، کاربن اس میں استعمال ہوتا ہے، یہ وہ چیز ہے جس پر ہم تحقیق کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ (مواد) متاثر کرتے ہیں، کتنا متاثر کرتے ہیں، کس سطح پر متاثر کرتے ہیں۔ یہ ابھی جاننے کی ضرورت ہے۔‘ ’وجہ جینیاتی ہےکہ آبادی کے جس گروپ سے تعلق ہے، وہاں پر جینیات کیسی ہیں۔

اسپرم بن نہیں رہے، بن رہے ہیں تو کم بن رہے ہیں، ان کی صحت کیسی ہے۔‘

ڈاکٹر شازیہ فخر کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ ہیں جو گذشتہ ایک دہائی سے زائد بے اولاد جوڑوں کی پیچیدہ بیماریوں کا علاج کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے پاس آنے والے بانجھ پن کا شکار جوڑوں کی تعداد پانچ سال میں دو گنا ہو گئی ہے اور ان میں سے زیادہ تعداد وزیرستان اور افغانستان کے لوگوں کی ہے۔‘ ان کے مطابق مجموعی طور پر آبادی کی 20 سے 25 فیصد شرح بانجھ پن کے مرض کا شکار ہے۔

ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ ’جنگ زدہ علاقوں کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی بانجھ پن کی بیماری اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پہلو پر گہری تحقیق کی جائے اور اس کے مضمرات کا جائزہ لے کر علاج میں پیش رفت کی جائے۔‘ ’اگر کسی کی بد امنی ہو، اور وہ بے چارے کو نہ چین ہے، نہ وہ بیٹھ سکتا ہے، ملک میں نہ آرام (امن) ہے نہ روزگار ہے، تو نفسیاتی پریشانی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔‘

نسوار بھی بانجھ پن کی ممکنہ وجہ

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے شمال مغربی علاقوں اور افغانستان میں نسوار کا بہت زیادہ استعمال بھی بانجھ پن میں اضافے کی ایک وجہ ہو سکتا ہے اور وہ اس کے مضر اثرات کے بارے میں بھی تحقیق کر رہے ہیں۔‘ ’اس کے یقیناً اثرات تو ہیں، لیکن مادہ تولید پر کتنا اثر کرتے ہیں، اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

بانجھ پن کے مریضوں کی بڑی تعداد نوجوان جوڑے

ڈاکٹر عاصم کے مطابق ان کے پاس آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد نوجوان ہے۔ ’ہمارے پاس جو مریض آرہے ہیں ایج گروپ کے حوالے سے، 18 سے 25 سال کے نوجوان جوڑے ہمارے پاس آرہے ہیں، ان کی نئی نئی شادیاں ہوتی ہیں۔

بے اولادی میں 60 فیصد مسئلہ خواتین کا ہوتا ہے اور 40 فیصد مردوں کا۔‘ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ ’خواتین میں بے اولادی کے زیادہ مسائل ان کے ہارمون کے نظام کی وجہ سے ہوتے ہیں۔‘

’کچھ نہ کچھ ہارمونز کا عدم توازن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دائمی بیماری ہے، دوسری خواتین میں ایک اور عام بیماری ہے جس میں بچہ دانی کی اندرونی تہہ میں جو سیلز ہوتے ہیں وہ ایبنارمل جگہ پر چلے جاتے ہیں، اور وہاں پر ان سے خون بہتا ہے جس کی وجہ سے رسولیاں بن جاتی ہیں، اور اندرونی نالیوں کو بند کر دیتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات سماجی مسائل اور رواج کی وجہ سے تاخیر سے کی گئی شادیاں بھی بے اولادی کا باعث بنتی ہیں۔‘

جوڑوں کا اکٹھے نہ رہنا

ڈاکٹر شازیہ فخر سمجھتی ہیں کہ ’بے اولادی کی ایک اور بڑی وجہ جوڑوں کا زیادہ وقت ساتھ نہ رہنا ہے۔‘ ’آدھے مریض تو وہ آتے ہیں بے چارے جن کی بیویاں یہاں ہوتی ہیں، جو سال سال، دو دو سال بعد ان کا شوہر آتا ہے کسی دوسرے ملک سے، دبئی سے، متحدہ عرب امارات سے، انگلینڈ سے کہیں سے بھی۔‘

 ان کے دو سال تو ویسے ہی گزر گئے، اس کے بعد وہ شوہر ایک ماہ کی چھٹی پر آیا، ایک ماہ وہ ساتھ رہے، جس میں آدھے ٹیسٹ ہوئے آدھے نہیں ہوئے، اور پھر وہ چلا گیا، مزید دو سال گزر گئے، بد قسمتی سے ان کا چھ، چھ سال کا بانجھ پن اس طرح بھی چل رہا ہوتا ہے۔‘

کیا بانجھ پن کا مکمل علاج ممکن ہے؟

ماہرین کے مطابق بانجھ پن کا شکار 70 فیصد مریضوں کا علاج ممکن ہوتا ہے اور صرف 30 فیصد ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج نہیں ہو سکتا۔ لیکن ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ ’آئی وی ایف طریقہ علاج، جس میں تولیدی مواد کو آپس میں ملایا جا سکتا ہے، کے آنے کے بعد وہ جوڑے بھی والدین بن سکتے ہیں جو دائمی بانجھ پن کا شکار ہیں، جبکہ ہارمونز کے عدم توازن کی عام بیماری دوائیوں سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘

شادی کے کتنے عرصے بعد ڈاکٹر سے ملنا چاہیے؟

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ ’نئے شادی شدہ جوڑوں کے ہاں اگر ایک سال تک اولاد نہیں ہوتی تو انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔‘ ’مزید انتظار مت کریں، اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں، گائناکالوجسٹس سے اور مردانہ بانجھ پن کے ماہر سے۔ جو ان کے ٹیسٹ کروائے تاکہ پتا چل سکے کہ مسئلہ کیا ہے۔‘

تولیدی صحت میں بہتری کے لیے مدد گار خوراک

ڈاکٹر عاصم کہتے کہ ’مردوں کے بانجھ پن میں خوراک کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔ خوراک آپ نے ایسی رکھنا ہوتی ہے کہ آپ گوشت زیادہ کھائیں، اس کے علاوہ آپ وزن کم رکھتے ہیں، تیل کم استعمال کرتے ہیں، مرچیں کم کھاتے ہیں، آدھے گھنٹے سے چالیس منٹ تک ورزش روزانہ لازمی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی اور دیگر نشوں سے بھی بچنا ہوتا ہے۔‘ ’میں مشورہ دوں گا کہ گوشت کا زیادہ استعمال کریں، جو بڑے جانور (بیف) کا بھی ہو سکتا ہے اور چھوٹے (مٹن) کا بھی۔ اس کے علاوہ مچھلی، مچھلی کا تیل، گرین یا میڈیٹیرین خوراک کی تجویز دی جاتی ہے۔‘