برلن: ایک چھت کے نیچے ۔ ایک مسجد، ایک کلیسااور ایک سینا گاگ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2021
ایک یادگار لمحہ
ایک یادگار لمحہ

 

 

برلن : ایک بڑی خبر اور اچھی خبر۔ ایک مثبت خبر اور ایک زبردست خبر

مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروپ نے جرمن دارالحکومت میں بین المذاہب مکالمے کی علامت کے طور پر ایک عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔جس میں تینوں مذاہب کے افراد عبادت کر سکیں گے۔برلن کے وسط میں سینٹ پیٹرز اسکوائر نامی جگہ پر ایک عمارت تعمیر کی جائے گی، جو آئندہ چند برسوں میں مکمل ہو جائے گی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ مرکز 13ویں صدی کے چرچ کی جگہ پر تعمیر کیا جائے گا جسے 1960 کی دہائی میں کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے تباہ کردیا تھا۔جرمنی میں پروٹسٹنٹ چرچ کے سربراہ ہینرک بیڈفورڈ اسٹروہم نے بتایا کہ اس سہ فریقی عبادت گاہ کو 'ہاؤس آف ون' پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے جو اس وقت ایک اہم پیغام دیتا ہے۔ 

AWAZURDU

 

اپنی نوعیت کی پہلی 

اس تعمیراتی منصوبے کے بنیادی محرکین کے بقول یہ عمارت دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی واحد عبادت گاہ ہو گی جو تینوں مذاہب میں سے صرف کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کے لیے مخصوص نہیں ہو گی۔ اسی لیے اس مشترکہ عبادت گاہ کو اب تک ’ایوانِ عبادت و تعلیم‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی میں سب سے زیادہ تعداد ترک نژاد مسلمانوں کی ہے۔

پروجیکٹ پر 44 ملین یورو لاگت 

دس سال کی منصوبہ بندی کے بعد شروع ہونے والے تعمیراتی کام کو مکمل ہونے میں چار سال لگیں گے اور اس کی لاگت 4کروڑ 73 لاکھ یوروز لاگت آئے گی، جرمنی کی حکومت کروڑ یورو دے گی، برلن ایک کروڑ 21 لاکھ یورو عطیہ کرے گا جبکہ بقیہ رقم دیگر ممالک سے آنے والے عطیات سمیت دیگر ذرائع سے جمع کی جائے گی۔ ۔ منصوبے کا مقصد نہ صرف یہ ظاہرکرنا ہے کہ کثیر المذہبی مکالمت کتنی اہم ہے۔

AWAZURDU

سال ۲۰۱۰ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برلن کی 3.4 ملین کی آبادی میں پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا تناسب قریب 19 فیصد بنتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 8.1 فیصد ہے جبکہ یہودیوں کا تناسب ایک فیصد سے کچھ کم ہے۔ برلن کے 60 فیصد سے زائد شہریوں کے مطابق وہ عملی طور پر کسی بھی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں۔

مذہبی فراغدلی کا نمونہ

 برلن کے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں 2007ء میں ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے کی جانے والی کھدائی کے دوران پتہ چلا تھا کہ اس جگہ پر قرون وسطیٰ سے لے کر 1960ء میں سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کے دور تک مختلف ادوار میں مسیحیوں کے سینٹ پیٹرز چرچ کے نام سے چار مختلف گرجا گھر قائم رہ چکے تھے۔ رولانڈ اشٹولٹے کے بقول برلن کی پروٹسٹنٹ برادری اس جگہ پر دوبارہ اپنا کوئی نیا چرچ قائم کرنے کی بجائے اسے اس طرح استعمال میں لانا چاہتی تھی کہ وہ برلن شہر کی کثیر المذہبی شناخت کا مظہر بھی ہو۔

 مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ترک نژاد امام مسجد کا نام قادر سانچی ہے اور ان کا تعلق برلن کے مسلمانوں کی ایک تنظیم، فورم برائے بین الثقافتی مکالمت سے ہے۔ قادر سانچی کے بقول فرینکفرٹ کے نواحی شہر ڈارمشٹٹ میں ایک ہی چھت کے نیچے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے دو مختلف چرچ دیکھتے ہی انہیں خیال آیا تھا کہ ایسا کوئی مرکز بھی قائم کیا جا سکتا ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں تینوں کے عبادت خانے قائم ہوں۔

AWAZURDU