نیویارک : متنازعہ مصنف سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ- ایک آنکھ ضائع ہوسکتی ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-08-2022
نیویارک :  سلمان رشدی پر چاقو سےحملہ
نیویارک : سلمان رشدی پر چاقو سےحملہ

 

 

نیو یارک/نیو دہلی 

سلمان رشدی پر نیویارک میں قاتلانہ حملہ ہوا- رشدی وہ مصنف جن کی متنازع کتاب شیطانی آیات کے خلاف 1980 کی دہائی میں ایران نے موت کا فتوی جاری کیا تھا- وہ برسوں تک رو پوشی میں زندگی گزارنے پر مجبور رہے تھے-جمعہ کو اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ مغربی نیویارک میں ایک لیکچر دینے والے تھے۔

چاقو گلے میں چھرا گھونپا گیا۔ حملہ اس وقت ہوا جب وہ لیکچر دینے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔

سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے بتایا: ’سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے بازو کی نسیں کٹ گئی تھیں اور ان کے جگر پر چھرا مارا گیا تھا، جس سے انہیں نقصان پہنچا۔‘ ایجنٹ اینڈریو وائلی نے مزید کہا کہ ’ابھی رشدی بول نہیں سکتے۔‘ نیو یارک سٹیٹ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سلمان رشدی پر حملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ پولیس کے مطابق بظاہر سلمان رشدی کی گردن پر چاقو کے وار کے نشانات ہیں اور انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی اسپتال منقتل کیا گیا۔جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے-

Awaz

نیو یارک پولیس نے بتایا کہ 75 سالہ رشدی، جنہیں "شیطانی آیات" نامی متنازع کتاب کے عنوان سے کئی سالوں سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس وقت اسٹیج پر موجود ایک شخص نے کئی بار چاقو سے وار کیا تھا جب انہیں مغربی نیویارک میں چوٹاکوا انسٹی ٹیوشن کی تقریب میں متعارف کرایا جا رہا تھا.

صرف 20سکینڈ میں15وار

اس حملے میں رشدی شدید زخمی ہو گئے، جنہیں بعد ازاں ہیلی کاپٹر سے قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس سب کے درمیان ایک عینی شاہد (ربی چارلس) نے اس حملے کے بارے میں بتایا ہے۔ جب رشدی پر حملہ ہوا تو ربی چارلس اس ہال میں موجود تھے جہاں کچھ دیر بعد رشدی نے تقریر کرنی تھی۔

ربی چارلس نے بتایا کہ حملہ آور پہلے اس پلیٹ فارم پر چڑھا جہاں رشدی موجود تھے- اس کے بعد وہ رشدی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ یہ شخص کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہاں موجود سیکورٹی اہلکار کچھ سمجھ پاتے حملہ آور نے رشدی پر حملہ کر دیا۔ تقریباً 20 سیکنڈ تک ملزم نے رشدی پر ایک کے بعد ایک 10 سے 15 وار کئے۔ ساتھ ہی اے پی کے ایک رپورٹر نے بھی تصدیق کی ہے کہ حملہ آور نے کم از کم 15 بار رشدی کو نشانہ بنایا ہے۔

اس حملے کے بعد رشدی پر حملے پر ٹوئٹر پر ردعمل آنے لگے اور اس واقعہ کو اظہار خیال کی آزادی پر بڑا حملہ قرار دیا گیا-

سلمان رشدی کون ہیں؟

دراصل 75 سالہ سلمان رشدی 1981 میں اپنے دوسرے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ کے ساتھ سپاٹ لائٹ میں آئے جس کے لیے ان کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی لیکن ان کی 1988 کی کتاب ’سیٹانک ورسز‘ نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ متعدد مترجم اور پبلشرز کے قتل کے بعد سلمان رشدی کو برطانیہ میں حکومت نے پولیس تحفظ فراہم کیا تھا۔

کیا تھا تنازعہ

چودہ فروری 1989 کے دن ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے برطانوی مصنف سلمان رشدی پر اسلام کی تذلیل کا الزام عائد کرتے ہوئے ناول ’دی سیٹینک ورسز’ لکھنے پر قتل کا فتوی جاری کیا تھا۔ فتوی میں خمینی نے ’دنیا کے مسلمانوں سے کہا کہ کتاب کے مصنف اور شائع کرنے والے کو فوری طور پر قتل کر دیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے بھی اگر کوئی ہلاک ہوتا ہے تو وہ شہید تصور ہوگا اور جنت جائے گا۔’ خمینی نے جن کی زندگی کے چار ماہ باقی تھے تقریبا تین کروڑ ڈالرز کا انعام بھی مقرر کیا تھا۔

روپوشی کا دور

برطانوی حکومت نے فورا لادین سلمان رشدی کو جو انڈیا میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے پولیس تحفظ فراہم کر دیا۔ انہیں جوزف اینٹن کے نقلی نام سے مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا۔ پہلے چھ ماہ میں انہیں 56 مرتبہ مقامات تبدیل کرنے پڑے۔

ہندوستان میں لگی تھی پابندی

ہندوستان کے  اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب پر اکتوبر 1988 میں  پابندی عائد کر دی تھی تاکہ انتخابات میں مسلمانوں نے حمایت جیت سکیں۔ تقریبا بیس دیگر ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل تھا اس پر پابندی عائد کی گئی۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں بریڈفرڈ میں مسلمانوں نے جنوری میں سڑکوں پر اسے نذر آتش کیا۔

روپوشی کا خاتمہ

سلمان بتدریج اپنی روپوش زندگی سے 1991 میں باہر آئے لیکن ان کے جاپانی مترجم اسی سال جولائی میں قتل کر دیئے گئے۔ چند روز بعد ان کے اطالوی مترجم پر چاقو سے وار کیا گیا اور دو سال بعد ناروے میں کتاب شائع کرنے والے پر گولی چلائی گئی۔ تاہم یہ کبھی واضح نہیں ہوسکا کہ ان حملوں کا خمینی کی دھمکی سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔

سر کا خطاب اور ناراضگی

ملکہ برطانیہ کی جانب سے 2007 میں ادب کے لیے خدمات کے صلے میں سر کا خطاب دینے پر غصہ آیا۔ ایران نے برطانیہ پر ’اسلام و فوبیا‘ بڑھانے کا الزام عائد کیا۔ اس وقت تک رشدی بغیر کسی خوف کے نیو یارک میں بس چکے تھے جہاں وہ نوئے کی دھائی کے اواخر میں منتقل ہوئے تھے۔ سائے میں طویل عرصے تک رہنے کے اب ان کا ملنا ملانا بڑھ گیا ہے اور مغرب میں کئی لوگ انہیں آذادی اظہار کے ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔