غزہ:فلسطینی تنظیم حماس نے سنیچر کے روز اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق اس وقت تک ترک نہیں کرے گی جب تک کہ ایک "آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست" قائم نہ ہو جائے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بالواسطہ مذاکرات گزشتہ ہفتے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ قطر اور مصر، جو ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے منگل کے روز فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے پیش کردہ دو ریاستی حل کے خاکے کی توثیق کی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ حماس کو اپنے ہتھیار مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دینے چاہییں۔
اسی روز اقوام متحدہ میں سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا۔ اعلامیہ میں ایک مرحلہ وار جنگ بندی معاہدے کے نفاذ، یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کے مطالبے شامل تھے۔ اس میں دو ریاستی حل کی بنیاد پر ایک تفصیلی روڈ میپ بھی پیش کیا گیا۔
تاہم اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ حماس کی جانب سے ہتھیار ڈالنا کسی بھی ممکنہ معاہدے کے لیے لازمی شرط ہے۔ اس کے برعکس، حماس بارہا اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ہتھیار رکھنے کے حق پر اصرار کرتی آئی ہے۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی ریاست اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی علاقوں پر سکیورٹی کنٹرول کو اسرائیل کے پاس رکھنے پر زور دیا اور برطانیہ و کینیڈا سمیت ان ممالک پر تنقید کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ نیتن یاہو نے اس عمل کو حماس کے لیے انعام سے تعبیر کیا۔
یاد رہے کہ دنیا کے 140 سے زائد ممالک پہلے ہی فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔سعودی عرب کی پالیسی بھی طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کے حق میں رہی ہے، اور اس نے غزہ و مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں کی بارہا شدید مذمت کی ہے