مسجد اقصی: انتظام اب اردن کے ساتھ سعودی عرب کے ہاتھوں میں بھی؟

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-07-2021
مسجد اقصی
مسجد اقصی

 

 

 ابوظبی:عالم اسلام کےلئے ایک بڑی خبر ہے۔ ایک ایسی خبر جو سب کو چونکا دے گی۔مسلمانوں کے تیسرے سب سے اہم مقام قبلہ اول یعنی مسجد اقصی کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری اب سعودی عرب کو بھی مل سکتی ہے۔یادرہے کہ ابتک اردن کو اس کا حق یا اعزاز حاصل تھا۔لیکن عالم عرب میں بڑی سیاسی اور سفارتی تبدیلیوں کے سبب اب اس بات کا امکان ہے کہ سعودی حکومت مسجد اقصیٰ کا انتظام ساجھے داری کی بنیاد پرسنبھال لے۔ اگر اسرائیل مسجد اقصی کا کنٹرول سعودی عرب کو دے دیتا ہے تو یہ اردن کے لئے بڑِی سفارتی ناکامی ہو گی۔مسجد اقصی مسلمانوں کے لئے خاص مذہبی اہمیت رکھتی ہے مسلمانوں کی اس قبلہ اول کے ساتھ جذباتی وآبستگی ہے۔

واضح رہے کہ 60 کی دہائی میں ایک ہفتے کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد اسرائیل اور اردن کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت اردن کو متنازعہ علاقے میں مزاحمت نہ کرنے کی شرط پر مسجد اقصیٰ کا کسٹوڈین بنادیا گیا تھا۔

نئی انتظامی کاونسل کی تشکیل

 اسرائیلی وزیرخارجہ یائر لیپڈ کے دورہ امارات میں اس حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کا انتظام اردن کی حکومت سنبھالتی ہے۔ تاہم اردن کے ساتھ سعودی حکومت بھی مسجد اقصیٰ کی دیکھ بھال کرے گی۔اس سلسلے میں نئی اسرائیلی حکومت مسجد اقصیٰ کی انتظامی کونسل بنانے کے لئے راضی ہوگئی ہے۔اد رہے کہ اسرائیلی وزیرخارجہ نے 30 جون سے یکم جولائی تک امارات کا دورہ کیا۔

اردن کی کیا ہے اہمیت

 شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ اسرائیل کے زیر قبضہ یروشلم اور قبلہ اول مسجد اقصی قانونی طور پر اردن کی بادشاہت کے تحت آتی ہے۔جبکہ وہ مسلم ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اردن ان میں صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اردن نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا اور دونوں ممالک کے شروع شروع میں انتہائی گہرے تعلقات رہے ہیں۔

 اسرائیل کے لیے اردن کی جیو اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔اردن اسرائیل کو سعودی عرب اور عراق کی سرحدوں کے ذریعے الگ کرتا ہے۔اردن کی وجہ سے اسرائیل کی حدود شام کے مختصر حصے سے ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردن، سعودی عرب، عراق، شام اور اسرائیل کے درمیان بنکر کا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔یہ بھی اہم ہے کہ اردن ہی وہ ملک ہے جس کی وجہ سے اسرائیل شام، عراق اور سعودی عرب کی طرف سے باغیوں کے براہ راست حملوں سے محفوظ ہے۔

مسجد اقصی اور یروشلم پر اردن کا حق

اردن  وہ واحد اسلامی ملک ہے جو مسجد اقصی اور یروشلم پر حق رکھتا ہے۔یروشلم میں موجود پاک پہاڑی، مسجد اقصی اور عیسائیوں کے مقدس مقام اردن کی بادشاہت کے تحت آتے تھے۔اردن ان علاقوں پر کنٹرول کا قانونی حق رکھتا ہے۔ 1994 میں اردن اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدہ کے ذریعے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات پر اردن کو خاص کردار دیا گیا۔سال2013میں فلسطینوں کے صدر محمود عباس نے بھی اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم کا یروشلم میں کردار تسلیم کیا اور ان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا۔

 نئے گٹھ جوڑ اوراتحاد

عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے تعلقات کی وجہ اردن کے تعلقات میں سر مہری آچکی ہے۔اردن عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے تعلقات پر ناگواری کا اظہار کئی بار کر چکا ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اورسابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سعودی عرب اسرائیل تعلقات کو فروغ دیا تھا۔اسی طرح متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ بھی اسرائیل کے تقلقات قائم ہوئے۔ان تعلقات میں محمد بن سلمان کا اہم کردار رہا لیکنان سب کے پیچھے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جیراڈ کشنر کا ہاتھ ہے۔