ایلن مسک :ایک 'بے گھر' کا خلا میں دنیا بسانے کا خواب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-09-2021
خواب تھا جو حقیقت بن گیا
خواب تھا جو حقیقت بن گیا

 

 

آواز دی وائس : دنیا دنگ ہے مگر سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔چار عام انسان خلا میں سیاحت کے لیے روانہ ہوگئے۔

کبھی کسی نے سوچا تھا کہ سیاحت کی ایک منزل ’خلا‘ بھی ہوگی ۔ مگر ایسا ہی ہوا ۔

یہ کوئی سرکاری کارنامہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسے انسان کا کارنامہ ہے جس یقینا دنیا کا سب سے دولت مند انسان ہے مگر بے گھر ہے۔

جی ہاں ! یہ ہیں امریکی تاجر ایلن مسک ۔ جن کی کمپنی’ اسپیس ایکس’ نے 15 ستمبر کو تاریخ رقم کی۔ انہوں نے 4 عام لوگوں کو خلا میں بھیجا۔

فالکن 9 راکٹ فلوریڈا میں ناسا کے کینیڈی اسپیس ریسرچ سینٹر سے لانچ کیا گیا۔

تقریبا 12 منٹ بعد ، ڈریگن کیپسول راکٹ سے الگ ہو گیا۔ یہ کیپسول 357 میل یا تقریبا 5 575 کلومیٹر کی بلندی پر تین دن تک زمین کا چکر لگائے گا۔

انسان 2009 کے بعد پہلی بار اتنی بلندی پر پہنچا ہے۔ مئی 2009 میں ، سائنسدان ہبل دوربین کی مرمت کے لیے 541 کلومیٹر کی بلندی پر گئے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں خلاباز اکثر آتے رہتے ہیں ، لیکن یہ 408 کلومیٹر کی بلندی پر ہے۔ اس مشن کو انسپریشن 4 کا نام دیا گیا ہے۔

یہ کارنامہ انہیں انسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے مقام دلا گیا ہے۔

  تاجر، موجد اور سرمایہ کار 

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے سائنس کو مذہب نہیں تو بھی بطور عقیدہ اختیار کر لیا ہے۔ تازہ ترین انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے’’مجھے آپ ملحد یا لاادری قرار دے سکتے ہیں، لیکن اگر میرا کسی چیز پر کچھ ایمان ہے تو بس کائنات کی ایک منظم تشریح پر کہ قانون کائنات کس طرح سے کام کرتے ہیں اور انسانیت پر۔‘‘

  معمولی اتار چڑھاؤ کے بعد ایلن مسک بدستور دنیا کے سب سے زیادہ امیر انسان ہیں۔ اور دنیا میں اس وقت بھی سب سے زیادہ سرمایہ واثاثہ جات کے مالک ہیں۔ان کی مجموعی دولت 185 ارب ڈالر ہو گئی ہے جس کے بعد انھوں نے شاپنگ ویب سائٹ ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی کمپنی کی مارکیٹ میں قدر 700 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

ایلن مسک کی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ 700 بلین ڈالرز کی حدوں کو چھو رہی ہے جو کہ کار کمپنیوں ٹویوٹا، فوکس ویگن، ہیوندے، جی ایم اور فورڈ کی مجموعی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے۔

امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد متعدد معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے،امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد ایلن مسک کی کمپنی کا مستقبل مزید تابندہ ہو سکتا ہے۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ ڈیموکریٹس کی آمد سے الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کا کام اور بڑھ جائے گا، کیوں کہ صدر جو بائڈن کی پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران گرین ایجنڈا کو فروغ دلانے کے مسلسل وعدے کیے تھے۔

awazurdu

چار خلائی مسافر

ہر میدان کا کھلاڑی 

ایلن مسک مستقبل کی کاریں تیار کرنے کے کام تک محدود نہیں بلکہ ان کی کمپنی ٹیسلا الیکٹرک کاروں میں نصب ہونے والے پرزہ جات اور بیٹریاں بھی بناتی ہے جو کہ دیگر کار کمپنیوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔وہ گھروں کے لیے سولر انرجی سسٹم بھی تیار کرتے ہیں جس کی طلب میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ امریکہ میں انتہائی تیز رفتار ترین زمین دوز ٹرانسپورٹ سسٹم کا خاکہ بھی تیار کر رہے ہیں۔

ویسے تو ایلن مسک کو دنیا امریکی تاجر کے طور پر پہچانتی ہے لیکن ان کا جنم افریقہ میں ہوا۔ان کے والد ایرل مسک افریقی اور والدہ میئی مسک کینیڈا سے ہیں۔ اگرچہ بظاہر دنیا میں مطالعے کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ایلن مسک نہ صرف بچپن سے ہی کتابوں کے رسیا تھے بلکہ وہ آج جو کچھ بھی کر رہے ہیں یا سوچ رہے ہیں ان کی توجیہ بھی، جیسا کہ آپ آگے مطالعہ کریں گے، وہ کتابوں ہی سے کرتے ہیں۔

پہلی کمائی 

وہ بچپن ہی سے ذہین تھے اور صرف دس سال کی کم عمر میں ہی انہوں نے کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھ لی اور بارہ سال کی عمر میں انہوں نے ’’بلاسٹر‘‘ نامی ایک وڈیو گیم بھی تیار کرلیا تھا، جسے ایک مقامی امریکی میگزین نے صرف پانچ سو ڈالر میں خرید لیا۔

دوسرا قدم 

اس رقم کو ایلن مسک کی پہلی کمائی کہا جاسکتا ہے۔ 1999میں ایلن اور ان کے بھائی کِمبل مسک نے اپنی سافٹ ویئر کمپنی ’’زپ ٹُو‘‘ کے لیے ایک کام یاب معاہدہ کرڈالا، جو سرمایہ بعد میں ایک نئی کمپنی ایکس ڈا ٹ کام میں لگایا گیا۔ جس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ’’وہ رقوم کی منتقلی کے سلسلے میں انقلاب کی نقیب ہے۔‘‘ ایلن مسک کی اس کمپنی نے اپنا قول نبھایا؛ جس کمپنی کو 2020 میں ’’اے بے‘‘ نے خرید لیا اور ان سے ایلن مسک کو 165 ملین ڈالر ملے۔

کار کمپنی کی بنیاد

سال 2004 میں ایلن مسک الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کی بنیاد رکھی اور کہا کہ مستقبل میں سب کچھ برقی ہوگا۔ خلا میں جانیوالے راکیٹ بھی۔ اور ٹیسلا اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ماحولیاتی آلودگی سے لے کر موسمیاتی تبدیلیوں اور اب کووڈ 19 جیسی وباؤں کے سبب زمین پر بسنا دشوارتر ہوتا جا رہا ہے۔

اس لیے سائنس داں نہ صرف زمین کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خلاؤں میں بھی ایسے سیاروں کی تلاش میں ہیں جو کہ زمین کی طرح قابل سکونت ہو۔اگرچہ فی الحال اس سلسلے میں کام یابی تو کافی دور لگتی ہے لیکن پھر بھی چاند اور مریخ پر بسنے کے حوالے سے انسانوں نے خواہشیں اور کوششیں شروع کردی ہیں۔

 سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹوئٹر’ پر ایک صارف نے جب ایلن مسک کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ دنیا کے امیر ترین شخص بن چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ کتنی حیرت کی بات ہے۔ اگلی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اب واپس کام کی طرف جانا چاہیے۔ ماضی میں ایلن مسک ٹوئٹر پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی آدھی دولت زمین کے مسائل کے حل کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں اور باقی آدھی مریخ پر ایک مستقل شہر بنانے کے لیے، تاکہ اگرزمین پر انسانیت کو خطرہ ہو تو اس کے لیے مریخ پر جگہ موجود ہو۔

اسٹار شِپ کا مشن  

این مسک بہت جلد ایک ایسے طیارے کا پروٹوٹائپ متعارف کروانے جا رہے ہیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ خلائی سفر کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔ اسٹار شِپ‘ نامی یہ ایک ایسا خلائی طیارہ ہوگا جسے دوبارہ استعمال کیا جا سکے گا اور یہ 100 افراد کو سرخ سیارے یعنی مریخ تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔

اسپیس ایکس کا قیام دراصل عالمی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کے خلائی ادارے سے مایوس ہوکر لایا گیا ہے، جیسا کہ انہوں نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،’’میں نے یہ کمپنی اس لیے قائم کی ہے کہ میں اس بات سے غیرمطمئن تھا کہ امریکا خلائی ایجنسی خلائی تحقیقات میں زیادہ پُرجوش نہیں ہے۔ اس کو اس سلسلے میں مستقبل کی کوئی خاص فکر نہیں۔

دوسرے سیاروں کو کرنا ہے آباد 

ایلن مسک کی خلائی سفر کی نجی کمپنی اسپیس ایکس کا مقصد ہی زندگی کو دیگر سیاروں پر آباد کرنا ہے۔ اس کی ایک وجہ زمین کے وجود کو درپیش خطرات ہیں جیسے کہ کسی ایسے ایسٹیرائیڈ کی زمین سے ٹکر جس سے انسانی نسل ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں دیگر سیاروں پر انسانی بستیاں انسانی نسل کی بقا میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ سنہ 2016 میں میکسیکو میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ایلون مسک نے اس بارے میں اپنی سوچ کی وضاحت یوں کی تھی کہ ۔۔۔۔۔’تاریخ دو میں سے ایک سمت میں جانے والی ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے زمین پر ہی رہیں اور ایسی صورت میں یقیناً کبھی نہ کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہو گا جس سے انسانی نسل ناپید ہوجائے گی۔‘

یہاں اس چیز کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ دنیا اس سے قبل بھی اس قسم کے حادثات سے دوچار ہوتی رہی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ ڈائنوسار جیسی دیوہیکل اور مہیب مخلوق بھی ایک شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرا جانے کے باعث ناپید ہو گئی تھی۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک تجرباتی ماڈل سے یہ کھوج لگا لیا ہے کہ آخر دنیا سے ڈائنو سار کی نسل کیسے مٹ گئی جب کہ ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق کروڑوں میں تھی اور کرۂ ارض پر ان کا راج تھا۔ یہ نظریہ پہلے سے موجود ہے کہ ایک بڑے شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں اتنی توانائی پیدا ہوئی اور اس قدر گرد وغبار اٹھا جس میں زمین پر جان داروں کا زندہ رہنا ممکن نہ رہا اور ڈائنوسار کی نسل مٹ گئی۔ تاہم اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے سائنس دانوں کے پاس شواہد موجود نہیں تھے۔

 جنون  کے لیے آخری گھر بیچا

اس سال جون میں  ایلن مسک نے اپنا آخری گھر بیچنے کا اعلان کیا تھا۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال مئی میں ایلن مسک نے اپنے نام کی تمام جائیدادیں فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز ایلن مسک نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم بے ایئریا مینشن کو 37.5 ملین ڈالر یعنی 5 ارب روپے سے زائد میں فروخت کرنے کے لیے اشتہار دیا ۔ رپورٹ کے مطابق ایلن مسک کا یہ گھر نجی تقریبات کے لیے بطور کرائے پر استعمال کیا جاتا تھا۔

awaz

۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کے دوران ایلن مسک 17 ارب روپے سے زائد کے 13 اثاثے اور جائیدادیں فروخت کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ میں اپنے تمام اثاثے فروخت کر رہا ہوں، اور اپنے نام کوئی گھر نہیں رکھوں گا۔ ایک پروگرام میں اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جائیداد سے متعلق میرے پر ہونے والی تنقید کی وجہ سے میں یہ اقدام اٹھا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ مجھے کہتے تھے کہ تمھارے پاس بہت جائیدایں ہیں، اب میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نام پر کچھ نہیں ہے۔