افغانستان کے 15 صوبوں میں القاعدہ سرگرم ہے۔ اقوام متحدہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-07-2021
افغانستان
افغانستان

 

 

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں خانہ جنگی جیسی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ 

ذرائع کے مطابق طالبان کا کنٹرول افغانستان میں پھیلتا جا رہا ہے اور انھوں نے ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے، اب طالبانی قومی دارالحکومت کابل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتہ عیدقربان کے دن کابل میں طالبان کی جانب سے راکٹ حملہ اس وقت کیا گیا، جب کہ صدر اشرف غنی عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کر رہے تھے۔ 

وہیں دوسری جانب افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان کی دسترس میں ہے، طالبان کا کنڑول ملک میں نہیں کے برابر ہے۔

افغانستان کے اندر یہ صورت حال ہے اور اب افغان طالبان پر اقوام متحدہ کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔    

اقوام متحدہ نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے درمیان روابط ماضی کی طرح بحال ہیں اور ان میں تعطل کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

عالمی ادارے کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 12ویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ممبر ممالک کو دونوں اسلامی تحریکوں میں روابط ٹوٹنے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں بلکہ ان میں دوسری نسل کے ذریعے مزید گہرائی اور مضبوطی آئی ہے۔

بائیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے مشرقی، جنوبی اور جنوب مشرقی خطے کے کم از کم 15 صوبوں میں القاعدہ موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان کی قیادت جبہت النصر شاخ کے شیخ محمود کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ القاعدہ کے اراکین کو طالبان نے دور افتادہ علاقوں میں روپوش کر دیا ہے۔ رکن ممالک کے مطابق القاعدہ طالبان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن اس نے طالبان قیادت کے دوحہ معاہدے کے پس منظر میں طالبان کی سفارتی پوزیشن کو خطرے میں نہ ڈالنے اور ’کم دکھائی‘ دینے کی کوشش میں ان کے ساتھ رابطوں کو کم کیا ہے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے کسی غیرملکی کو افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

اقوام متحدہ کہ مطابق القاعدہ کی قلیل مدتی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان کو بنیادی قیادت کے لیے روایتی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر برقرار رکھے۔ مانیٹرنگ ٹیم کا اندازہ ہے کہ القاعدہ دوبارہ بین الاقوامی اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش آگے چل کر سکتی ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ منظر نامہ طالبان کی اس طرح کی سرگرمیوں کی ممانعت کے بیان کردہ وعدوں کے خلاف ہے۔

رپورٹ کے مطابق القاعدہ بشمول القاعدہ برصغیر کے اراکین کی تعداد کئی درجن سے 500 افراد تک بتائی جاتی ہے۔ اس تنظیم کی کور رکنیت غیرافغان ہے جو بنیادی طور پرشمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے شہریوں پر مشتمل ہے۔

رکن ممالک کے خیال میں القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ حکام کے درمیان باضابطہ بات چیت اس وقت غیر معمولی ہے۔ ایک رکن ملک کے بقول طالبان اور القاعدہ کے درمیان امن عمل سے متعلق امور پر باقاعدگی سے بات چیت ہو رہی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس گروپ کے رہنما ایمن محمد ربی الظواہری افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں کہیں’روپوش‘ہیں۔ ماضی میں ان کی بیماری کی وجہ سے موت کی خبروں کی باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

ایک رکن کے مطابق وہ بہت بیمار ہیں اس لیے شاید پروپیگینڈا مواد میں دکھائی نہیں دے رہے۔ القاعدہ برصغیر قندھار، ہلمند (خاص طور پر بارمچا) اور نمروز صوبوں میں طالبان کی چھتری تلے سرگرم ہے۔ یہ گروپ بنیادی طور پر افغان اور پاکستانی شہریوں پر مشتمل ہے بلکہ بنگلہ دیش، ہندوستان اور میانمار سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس کے موجودہ رہنما اسامہ محمود ہیں جنہوں نے قاسم عمر کی جگہ لی ہے۔ متعدد رکن ممالک نے یہ نوٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے سابق رہنما قاسم عمر کی اہلیہ دوحہ معاہدے کے تحت 2020 میں افغان حکومت کی جانب سے آزاد کیے گئے پانچ ہزار طالبان قیدیوں میں شامل تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام علاقے میں القاعدہ کے متعدد کمانڈروں کی ہلاکت دونوں گروہوں کی قربت کو اجاگر کرتی ہے۔

اکتوبر میں الرؤف کی موت کے القاعدہ برصغیر کے نائب محمد حنیف (عرف عبداللہ) کو 10 نومبر 2020 کو صوبہ فرح میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں طالبان کو بم بنانے کی تربیت دے رہے تھے۔

مئی 2020 میں القاعدہ برصغیر نے عید الفطر کے موقع پر ایک آڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں اس نے دوحہ معاہدے کو خدا کی جانب سے دی گئی فتح اور انعام کی مثال کے طور پر پیش کیا۔

اگرچہ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں تنظیمیں طالبان کے اہداف کے حصول تک فاصلہ اور خفیہ رہنے کو ترجیع دیں گی۔

اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے رپورٹ کے آخر میں کہا ہے کہ اس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ افغانستان کے علاقائی اور بین الاقوامی دونوں ایجنڈوں کے حامل انتہا پسندوں کی دوبارہ منزل بننے پر کڑی نظر رکھے۔