القاعدہ اور داعش کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں : طالبان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-09-2021
طالبان کا دعوی
طالبان کا دعوی

 

 

کابل : افغانستان میں میں دولت اسلامیہ یا القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند موجود ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ اس کا دعوی آج طالبان نے کیا ہے۔ حالانکہ طالبان کا یہ بیان دولت اسلامیہ کے مشرقی شہر جلال آباد میں بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔

گزشتہ ماہ کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان کو بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کریں جس نے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے کیے تھے۔

طالبان کو ایک ہی وقت میں دولت اسلامیہ کے ان ذیلی گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے دعووں سے نمٹنا پڑا جن کے ساتھ وہ کئی سالوں سے معاشی اور نظریاتی تنازعات کا شکار ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ القاعدہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے اور بار بار اس عزم کا اعادہ کیا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان سے تیسرے ممالک پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سےخطاب کے دوران بتایا کہ ’ہم افغانستان میں ایسے کسی (شخص یا گروہ) کو نہیں دیکھتے جس کا القاعدہ سے کوئی تعلق ہو۔ ہم اس بات پر قائم ہیں کہ افغانستان سے کسی بھی ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

طالبان کو 2001 میں امریکی حمایت یافتہ قیادت کی افواج نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا کیونکہ انہوں نے 11 ستمبر کے حملوں کی ذمہ دار القاعدہ کی قیادت کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ پچھلے مہینے کابل واپس آئے تھے جب امریکی افواج نے انخلا کا اعلان کیا تھا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت اور فوج کا تختہ الٹ گیا تھا۔ 

دولت اسلامیہ سے الحاق شدہ افغان گروہ کو اسلامک سٹیٹ خراسان (آئی ایس آئی ایس-کے) کے نام سے جانا جاتا ہے جو اس خطے کا پرانا نام ہے۔

اس نام سے منسوب گروہ سب سے پہلے 2014 میں مشرقی افغانستان میں سامنے آیا تھا اور بعد میں دوسرے علاقوں بالخصوص شمال کی جانب پھیلتا چلا گیا۔

کئی سال پہلے امریکی فوج نے اس گروپ کی طاقت کا اندازہ تقریبا دو ہزار جنگجوؤں کے طور پر لگایا تھا حالانکہ اسی وقت چند افغان حکام نے کہا تھا کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اس گروہ نے سمگلنگ کے راستوں پر قابو پانے کے لیے امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج اور طالبان سے لڑائی کی اور دوسری جانب بظاہر ایک عالمی خلافت قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔

اس گروپ نے اختتام ہفتہ مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی گروہ نے پچھلے مہینے کابل ایئرپورٹ پر ایک خودکش بم حملہ کرنے کا بھی دعوی کیا تھا جس میں 13 امریکی فوجی اور کئی افغان شہری ہلاک ہوئے تھے جو ایئرپورٹ کے دروازوں کے باہر ہجوم کی صورت میں موجود تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تردید کی کہ اس دولت اسلامیہ کی افغانستان میں کوئی حقیقی موجودگی ہے البتہ انہوں نے کہا کہ وہ ’پوشیدہ طور پر کچھ بزدلانہ حملے کرتے ہیں‘۔ 

انہوں نے کہا کہ ’داعش جو عراق اور شام میں موجود ہے، یہاں موجود نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے، جو ہمارے اپنے افغانی ہو سکتے ہیں داعش کی ذہنیت کو اپنا لیا ہے جو کہ ایک ایسا رجحان ہے جسے عوامی حمایت حاصل نہیں۔