افغان تنازعے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ افغان طالبان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
دل میں کچھ اور زبان پر کچھ
دل میں کچھ اور زبان پر کچھ

 

 

 کابل : افغانستان کی سرزمین پر بچھی سیاسی بساط پر ہر فریق ایک نئی چال چل رہا ہے ۔کبئی افغان طالبان خونریزی کرتے ہیں تو کبھی امن کی بات کرتے ہیں۔ وہی حال پاکستان کا ہے جو بظاہر تو یہ اعلان کررہا ہے کہ طالبان سے کوئی رابطہ ہے نہ تعلق جبکہ در پردہ کچھ اور کھیل جاری ہے ۔

اب افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا ہے کہ وہ افغان تنازعے کے سیاسی حل کے حامی ہیں۔یہ بیان عید الاضحیٰ سے کچھ دن قبل ہی اتوار کو جاری ہوا۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک سے امریکی افواج کا انخلا جاری ہے اور طالبان کی پیش قدمی میں وہ اور کئی اہم سرحدی علاقوں میں قابض ہوگئے ہیں۔عید سے قبل جاری بیان میں ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا: ’فوجی پیش قدمی کے باوجود اسلامی امارات سختی سے ملک میں سیاسی تصفیے کی حامی ہے۔‘اسلامی امارات اسلامی نظام کے قیام اور امن و سلامتی کے لیے ہر موقع کا استعمال کرے گی۔

‘  یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ہندوستانی فوٹو گرافر دانش صدیقی کے خون سے طالبان کے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ وہ ایک جانب اسلام اور امن کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری جانب بر بریت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے حل تلاش کرنے کے عزم پر قائم ہیں مگر یہ بھی کہا کہ ’مخالفین وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘ ’ہمارا پیغام یہی ہے کہ غیر ملکیوں پر انحصار کرنے کی بجائے ہمیں اپنے مسائل اپنے آپ ہی حل کرنے چاہییں اور اپنے وطن کو اس بحران سے نکالنا چاہیے۔‘

 ہیبت اللہ اخونزادہ کا بیان ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آیا ہے جب افغان حکومت کا وفد اور طالبان کا وفد مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے دوحہ میں جمع ہیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ تعطل کا شکار مذاکرات اب واپس بحال ہوں گے۔

 فریقین کے درمیان گذشتہ کچھ ماہ سے دوحہ میں ملاقاتیں جاری ہیں مگر اب تک کوئی اہم پیش قدمی نہیں ہوئی ہے۔

 مانا جا رہا ہے کہ ملک کے چار سو میں آدھے کے قریب اضلاع اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔ وہ پاکستان اور ایران کی اہم سرحدی گزرگاہوں سمیت کئی صوبائی دارالحکومتوں کے بھی محاصرے کیے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس بار طالبان کے سربراہ نے عید کے لیے جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا۔ گذشتہ سالوں میں طالبان نے اسلامی تہواروں کے دوران کم مدتی جنگ بندی کے اعلانات کیے ہیں جس سے امید جاگتی تھی کہ ممکنہ طور پر ملک میں تشدد میں کمی بھی لائی جائے گی، تاہم ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔