افغانستان : امریکا کا افغان فوج کی مالی امداد کا وعدہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-07-2021
جان بچی تو ہوگا ڈالر خرچ
جان بچی تو ہوگا ڈالر خرچ

 

 

امریکا اور نیٹو نے 2024ء تک ہر سال افغان فوج کو 4 ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران افغان فوج کی تربیت اور اسے مسلح کرنے پر تقریباً 89 ارب ڈالرز پہلے ہی خرچ ہو چکے ہیں اور ایک امریکی سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ اس خطیر رقم کی کوئی نگرانی نہیں کی گئی، کروڑ ہا ڈالرز کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئے اور اس وقت بھی فوجی نظام میں بد عنوانی اپنے عروج پر ہے۔ اب نئی سالانہ امداد کہاں جائے گی؟ 31 اگست کے بعد اس کی نگرانی کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا کہ جب اتحادی افواج کا آخری دستہ بھی افغانستان چھوڑ دے گا۔

 تقریباً 83 ارب ڈالرز افغانستان کی قومی افواج بنانے، اسے مسلح کرنے، تربیت دینے اور برقرار رکھنے پر خرچ کیے گئے۔ اس میں فوج کے علاوہ قومی پولیس اور اسپیشل فورسز بھی شامل ہیں۔ یہ اخراجات مختلف مد میں کیے گئے مثلاً امریکا نے 2010ء سے 2020ء کے دوران تقریباً 10 ارب ڈالرز گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی خریداری پر خرچ کیے اور 3.75 ارب ڈالرز تو افغان فوج کے لیے ایندھن پر ہی لگا دیے گئے۔ پھر مزید 5.8 ارب ڈالرز 2001ء سے اب تک معاشی اور ترقیاتی کاموں اور بنیادی ڈھانچے میں گئے ۔ جن کا مقصد عوامی تائید حاصل کرنا اور طالبان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا تھا۔

 یہ تمام اعداد و شمار اسپیشل انسپکٹر جنرل آن افغانستان ری کنسٹرکشن یا مختصراً  کے جان سوپکو کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔ اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ نگرانی کرے کہ امریکی باشندوں کا دیا گیا ٹیکس کیسے خرچ ہو رہا ہے۔

 امریکا نے 2022ء کے لیے 3.3 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ ان میں سے 1 ارب ڈالرز افغان فضائیہ اور اسپیشل مشن وِنگ کی مدد کے لیے، 1 ارب ڈالرز ایندھن، اسلحہ اور فاضل پرزوں اور 70 کروڑ ڈالرز افغان فوجیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ہوں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ افغان حکومت 2024ء کے بعد اپنی فوج کو تنخواہیں کہاں سے ادا کرے گی۔

 ‏ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خرچ کیے گئے اربوں ڈالرز میں سے بیشتر کی کوئی نگرانی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ افغان اور غیر ملکی ٹھیکیداروں کو بد عنوانی کا کھلا موقع ملا۔ سوپکو نے درجنوں ایسی رپورٹ ظاہر کی ہیں جن میں سرمائے کے ضیاع، بد انتظامی اور کھلی بد عنوانی ظاہر ہوئی ہے۔ مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے افغان فضائیہ کے لیے 20 عدد G222 فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کی خریداری اور مرمت کے لیے 54.7 کروڑ ڈالرز خرچ کیے تھے۔ بعد ازاں، ان میں سے 16 طیارے صرف 40,257 ڈالرز میں کباڑ میں فروخت کر دیے گئے کیونکہ امریکی اداروں نے ناقص اور غیر محفوظ طیارے فراہم کیے تھے