افغانستان:عالمی برادری کی بحالی امن کی کوشش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-03-2021
مذاکرات کا راستہ
مذاکرات کا راستہ

 

 

ماسکو ۔افغانستان میں پائدار اور مستقل امن کی بحالی کےلئے کوشا ں عالمی برادری ایک اہم اجتماع دو دن قبل ماسکو میں اختتام کو پہنچا ۔جس میں امریکا ،روس اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کےنمائندوں نے شرکت کی تھی۔

ان کے ساتھ بحالی امن کی کوششوں میں شامل افغان طالبان کے نمائندے بھی موجود تھے۔ان کے ساتھ ترکی اور قطر کے نمائندے مہمان خصووی کی حیثیت سے موجود تھے۔ افغانستان میں بحالی امن کےلئے جن مذاکرات کے دور جاری ہیں،انہیں بہت مثبت مانا جارہا ہے۔

چا ر ممالک کے نمائندں کے ساتھ اس طرز پر مذاکرات کا سلسلہ دو سال سے جاری ہے۔ ماسکو کی میٹنگ کے بعدایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام کی خواہش ہے کہ جنگ کا سلسلہ ختم ہو اور پائدار امن قائم ہو۔جبکہ اس کی حصولیابی صرف سیاسی طور پر ہی ہوسکتی ہے۔

اس مشترکہ بیان میں یہ افغانستان کے مسئلہ میں شامل تمام فریقوں سے درخواست کی گئی ہے کہ تشددکو کلم کیا جائے۔ساتھ ہی طالبان اب موسم گرما کے آغاز پرحملوں کا سلسلہ شروع نہ کریں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار داد ۲۵۱۳(۲۰۲۰)کے تحت چاروں ممالک افغانستان میں اسلامی امارات نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کی وبحالی کی حمایت کرتے ہیں۔ساتھ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

چاروں ممالک نے مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کی حمایت کی ہے تاکہ ملک میں ایک آزاد،متحد،پرامن اور جمہوری حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہوسکے۔افغانستان دہشت گردی سے دور ہوجائے اور خود کفیل بھی۔ چاروں ممالک نے افغنان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ ملک کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گرد تنظیم یا فرد کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ افغانستان کے مسئلہ پر اب ماسکو فارمیٹ کے تحت بات چیت کا سلسلہ پھر شروع ہورہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پھر سے ابھرا ہے کہ افغانستان کے امور میں روس کا کردارکس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا کے نزدیک یہ میٹنگ افغانستان میں تمام دیگر بین الاقوامی امن کوششوں کو تقویت دے گی اور ساتھ ہی اب تک ہوئی پیشرفت پر عالمی برادری کی تشویش کی بھی عکاس بنے گی۔ ماسکو فارمیٹ کے انعقاد کا وقت بھی خاص ہے۔ یہ میٹنگ ایسے وقت منعقد کی جارہی ہے جب امریکی حکومت ٹرمپ دور میں بنائی گئی افغان حکمت عملی پر نظرثانی کررہی ہے۔ امریکا کو بظاہر افغان پالیسی بدلنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کیونکہ اب تک یہ پالیسی اس کے مفاد میں رہی ہے۔

سب سے بڑی بات یہ کہ 29 فروری 2020 کو جب سے امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدہ ہوا ہے، کوئی ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوا۔ تاخیر ہی سے سہی بین الافغان امن مذاکرات کی جانب سفر کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ امریکا نے افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی کو ابھی اس بارے میں مکمل طورپر اعتماد میں بھی نہیں لیا کہ آیا یکم مئی سے پہلے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ پورا کیا جائے گا یا نہیں۔ تاہم خطے میں کوئی بھی ملک بشمول روس کے، اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ امریکا کی پوری فوج یکم مئی کو اپنا بوریا بستراٹھا کرافغانستان خالی کردے گی۔ ماسکو کے نزدیک امریکا نہ صرف یہاں موجود رہے گا بلکہ اپنے فوجی اڈے بھی قائم رکھنا چاہتا ہے۔