افغانستان :طالبان کاقندھار اور ہرات پر قبضہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2021
طالبانی گشت کررہے ہیں سڑکوں پر
طالبانی گشت کررہے ہیں سڑکوں پر

 

 

کابل: طالبان کی پیشقدمی بڑھتی جارہی ہے ،کل رات کو طالبان نے افغانستان کے تیسرے بڑے شہر ہرات پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ہرات گیارواں صوبائی دارالحکومت ہے جو طالبان کے قبضے میں گیا ہے۔

افغانستان میں طالبان نے ہرات اور قندھار کے اہم شہروں پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ امریکہ اور برطانیہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ اپنے سفارتی عملے کو نکالنے کے لیے ہزاروں فوجی افغانستان بھیج رہے ہیں۔

امریکہ نے طالبان کو عارضی طور پر تعینات کیے جانے والے فوجیوں پر حملوں سے باز رہنے کی تنبیہ بھی کی ہے۔

 ہرات میں سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی فورس اور انتظامیہ شہر کے باہر اپنی بیرکوں میں چلے گئے۔

 ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں شہر کو چھوڑنا تھا تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔

تاہم طالبان ترجمان نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہو گئے۔‘ لوگوں نے ہرات میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر طالبان کا جھنڈا لہراتے دیکھا، جبکہ طالبان نے کہا کہ ’دشمن بھاگ گیا۔ درجنوں فوجی گاڑیاں، ہتھیار اور اسلحہ مجاہدین کے ہاتھ میں آ گیا۔

 طالبان کی ہرات شہر میں موجودگی کے حوالے سے مزید تفصیلات دستیاب نہیں لیکن شہر گذشتہ کئی ہفتوں سے طالبان کے محاصرے میں تھا۔

 ہرات ایران کے بارڈر سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور مشہور وارلارڈ اسماعیل خان کا آبائی علاقہ ہے۔ اسماعیل خان گذشتہ کئی ہفتوں سے طالبان کے خلاف اپنی فورس کو منظم کر رہے تھے۔

 طالبان کا دسویں صوبائی دارلحکومت عزنی پر قبضہ

قبل ازیں افغان وزارت داخلہ نے نے کابل، قندہار شاہراہ پر واقع اہم صوبائی دارلحکومت عزنی پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی تھی۔ یہ طالبان کا ایک ہفتے سے کم وقت میں دسویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ ہے۔ افغانستان میں سینیئر قانون ساز نے بتایا ہے کہ طالبان نے کابل سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر غزنی پر قبضہ کر لیا ہے صوبائی کونسل کے سربراہ ناصر احمد فقیری نے بتایا کہ ’طالبان نے شہر کے کئی اہم علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے جن میں گورنر آفس، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور جیل شامل ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا شہر کے کئی مقامات پر لڑائی جاری ہے لیکن صوبائی دارالحکومت کا زیادہ تر حصہ طالبان کے قبضے میں ہے۔

طالبان کے ترجمان نے بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے شہر پر قبضے کی تصدیق کی ہے۔ ایک ہفتے سے کم وقت میں طالبان نے 10 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور اب ان کی نگاہیں شمالی کے سب سے بڑے شہر مزار شریف پر ہیں جو روایتی طور پر طالبان مخالف گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

جنوب میں طالبان کے حامی سمجھے جانے والے شہروں قندھار اور لشکر گاہ اور مغرب میں ہرات میں بھی لڑائی جاری ہے۔ بدھ کو رات دیر گئے طالبان نے قندھار میں قلعہ بند جیل پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک طویل محاصرے کے بعد مکمل طور پر فتح ہو گئی ہےاور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کر کے محفوظ مقام پر لے جایا گیا۔

 اس سے قبل بدھ کو افغان طالبان نے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کیا تھا۔ افغان میڈیا کے مطابق افغان آرمی چیف جنرل ولی محمد احمد زئی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ہیبت اللہ علی زئی کا تقرر کیا گیا ہے لیکن ابھی تک افغان حکومت نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔ فیض آباد پر قبضے کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کے رکن ذبیح اللہ عتیق کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ رات گئے سکیورٹی فورسز جو کئی دنوں سے طالبان سے لڑ رہی تھیں، شدید دباؤ میں آ گئیں۔ دوسری جانب قندوز کے ایک مقامی رکن اسمبلی نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ سینکڑوں افغان فوجی جنہوں نے ہفتے کے آخر میں طالبان کے شمالی شہر پر قبضہ کرنے کے بعد قندوز کے باہر ہوائی اڈے کے قریب پسپائی اختیار کی تھی، ہتھیار ڈال دیے ہیں۔