افغانستان: خواتین میزبانوں کے لیے نقاب کا حکم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-05-2022
افغانستان: خواتین میزبانوں کے لیے نقاب کا حکم
افغانستان: خواتین میزبانوں کے لیے نقاب کا حکم

 

 

کابل: طالبان کے تیور دن بدن سخت ہوتے جارہے ہیں ،خاص طور پر خواتین کے لیے ان کے فیصلے دنیا کو پریشان کررہے ہیں ۔اب طالبان  کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے اتوار سے خواتین ٹی وی نیوز اینکرز کے لیے آن ایئر نقاب پہننے کے حکم کا نفاذ شروع کر دیا ہے جس کے بعد سے آن اسکرین نظر آنے والی زیادہ تر خواتین میزبانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ اس فیصلے کا اعلان جمعرات 19 مئی کو کیا گیا تھا جس کی تعمیل صرف چند سٹیشنوں نے کی تھی، تاہم اتوار کو ٹی وی پر خواتین کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وزارت نے ٹی وی چینلز کو یہ ’مشورہ‘ دیا تھا لیکن ’ٹی وی پر خواتین میزبانوں کے لیے اپنے چہروں کو ڈھانپنے کی حتمی تاریخ 21 مئی ہے، جس کے بعد اس نئی ضرورت پر عملدرآمد کا آغاز ہو گا۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ خواتین میزبان فیس ماسک لگا سکتی ہیں جیسے کرونا وبا کے دوران دیکھا گیا تھا۔ اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان حکام نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے کئی حکم جاری کیے ہیں، جیسے کہ سیکنڈری سکول بند کرنا اور خواتین کو عوامی جگہوں میں برقع پہننے کا حکم۔ ٹی وی میزبان سونیا نیازی، جو چینل طلوع نیوز کے لیے کام کرتی ہیں، بھی اتوار کو ٹی وی پر چہرہ ڈھکے ہوئے نظر آئیں، تاہم وہ اس حکم سے خوش نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا ’ہم نے مزاحمت کی اور ماسک پہننے کے خلاف تھے لیکن طلوع نیوز پر دباؤ ڈالا گیا کہ کوئی بھی خاتون اینکر جو اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر سکرین پر نظر آتی ہے، اسے کوئی اور ذمہ داری سونپی جائے یا اسے ملازمت سے ہٹا دیا جائے۔‘

انہوں نے کہاکہ’آج ماسک نافذ ہوا ہے کل برقع ہوگا مگر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کر سکیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایک خاتون کی شناخت اس سے نہیں لینی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ہماری آواز سنے اور یہ سمجھے کہ خواتین افغانستان میں محفوظ نہیں۔

‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک ہے مگر ہم رو کر دنیا یا اسلامی امارات کو یہ دکھانا نہیں چاہتے کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ درحقیقیت میں اس کے خلاف ہوں اور میں اس حکم کی وجہ سے کبھی نہیں روؤں گی۔ مگر میں مزاحمت کرنے کی پوری کوشش کروں گی اور دوسری افغان لڑکیوں کے لیے آواز بنوں گی۔

‘ طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ یہ فیصلہ ’اٹل اور غیر مفاہمتی‘ ہے۔ طلوع نیوز کی ایک اور میزبان فریدہ سیال نے بی بی سی کو بتایاکہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم حجاب پہن رہے ہیں، ہم اپنے بال چھپاتے ہیں، لیکن ایک اینکر کے لیے مسلسل دو یا تین گھنٹے تک اپنا چہرہ ڈھانپنا اور بات کرنا بہت مشکل ہے۔‘ انہوں نے کہاکہ’(طالبان) خواتین کو سماجی اور سیاسی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں۔‘ دوسری جانب خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس چینل کے مرد اہلکاروں نے بھی اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ لیا۔