افغانستان بن گیا عراق اور شام کے دہشت گردوں کی منزل ۔ پوتن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
افغانستان بن رہا ہے عراق اور شام کے  دہشت گردوں کی منزل ۔ پوتن
افغانستان بن رہا ہے عراق اور شام کے دہشت گردوں کی منزل ۔ پوتن

 

 ماسکو:وہی ہورہا ہے جس کا خدشہ تھا بلکہ یقین تھا کہ افغانستان کی سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائے گی۔اب اس کا اعتراف  بھی کیا جارہا ہے اور اس کے ثبوت بھی مل رہے ہیں۔ 

اب روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ عراق اور شام سے شدت پسند افغانستان میں ’فعال طور پر‘ داخل ہو رہے ہیں۔  پوتن نے سابق سوویت ریاستوں کی سکیورٹی سروس کے سربراہوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے دوران کہاکہ افغانستان کی صورت حال آسان نہیں ہے۔بات واضح ہے کہ افغانستان امریکی انخلا کے بعد ایک بار پھر نہ صرف خطہ بلکہ دنیا میں امن و امان کے لیے بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ یہی خدشہ ہندوستان نے بھی ظاہر کیا تھا اور اسی لیے اپنے سفیر کو افغانستان سے واپس بلا لیا تھا کہ ملک کے حالات کسی کی جان کی ضمانت دینے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔

پوتن نے مزید کہا کہ عراق اور شام سے عسکری کارروائیوں کا تجربہ رکھنے والے شدت پسندوں کو فعال طور پر وہاں بھیجا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ دہشت گرد پڑوسی ریاستوں میں صورت حال کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کریں اور وہ ’براہ راست پھیلاؤ‘ کی بھی کوشش کریں۔ پوتن بارہا شدت پسند گروہوں کی جانب سے افغانستان میں سیاسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑوسی سابق سوویت ممالک میں بطور پناہ گزین داخلے کے خطرے سے متعلق انتباہ کرچکے ہیں۔

اگرچہ ماسکو کابل میں طالبان کی نئی قیادت کے بارے میں محتاط طور پر پُرامید رہا ہے ، تاہم روس کو وسطی ایشیا میں عدم استحکام کے بارے میں تشویش ہے جہاں اس کے فوجی اڈے ہیں۔ طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد، روس نے سابق سوویت ریاست تاجکستان، جہاں اس کا ایک فوجی اڈہ موجود ہے، اور ازبکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔

تاجکستان کے قومی سلامتی کے سربراہ سیمومین یاتیموف نے ویڈیو کانفرنس میں بتایا کہ افغانستان سے ان کے ملک میں ’منشیات، ہتھیار اور گولہ بارود‘ سمگل کرنے کی کوششوں میں ’شدت‘ آئی ہے۔

افغانستان طویل عرصے سے افیون اور ہیروئن پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا ہے، جس کی غیر قانونی تجارت سے حاصل ہونے والا منافعے سے طالبان کو فنڈز فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس سے قبل بدھ کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے تاجکستان کے رہنما امام علی رحمٰن کی پیرس میں میزبانی کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وسطی ایشیائی ریاست کو استحکام برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، تاہم اس خطے میں سابق سوویت ریاستوں کو اس سے قبل افغان میں سرگرم عسکریت پسندوں کے حامیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے افغانستان کے لیے روس کے سفیر ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ روس 20 اکتوبر کو افغانستان پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات کے لیے طالبان کو ماسکو مدعو کرے گا۔