کابل: افغانستان میں خواتین کے لیے ایک کے بعد ایک مواقع ختم ہوتے چلے گئے۔ فارماکولوجی کی طالبہ سودابہ، دیگر افغان خواتین کی طرح، طالبان حکومت کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کو خاموشی سے دیکھتی رہیں، جو رفتہ رفتہ ان کی زندگیوں کو جکڑتی گئیں۔ 2021 میں جب طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے خواتین پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دیں۔
خواتین کے لیے پارکوں اور جِم جانے، ریستوران میں کھانے اور بیشتر شعبوں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن سودابہ کے لیے سب سے بڑا صدمہ ابتدائی تعلیم کے بعد اسکول جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کی صورت میں آیا۔ حالات سے مجبور ہو کر 24 سالہ سودابہ نے آن لائن تعلیم کا راستہ اپنایا اور وہیں اسے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ افغان خواتین کے لیے کمپیوٹر کوڈنگ کا ایک مفت آن لائن کورس ان کی مادری زبان دری میں پڑھایا جا رہا ہے۔
یہ کورس یونان میں مقیم ایک افغان پناہ گزین مرتضیٰ جعفری نے شروع کیا تھا۔ سودابہ کہتی ہیں: میرا ماننا ہے کہ انسان کو حالات کے آگے ہار نہیں ماننی چاہیے، بلکہ ہر ممکن طریقے سے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ اور کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں:ان مہارتوں نے مجھے اعتماد دیا ہے اور میرے مستقبل کے لیے ایک واضح سمت فراہم کی ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہوں نے صرف اپنا پہلا نام ظاہر کیا۔ یہ کورس "افغان گیکس" نامی کمپنی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، جس کی بنیاد 25 سالہ مرتضیٰ جعفری نے رکھی تھی۔ جعفری اپنی نوعمری میں ترکی سے کشتی کے ذریعے یونان پہنچے تھے۔
جعفری خود کہتے ہیں: ایک وقت تھا جب مجھے کچھ بھی نہیں آتا تھا... میں مکمل طور پر خالی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کشتی کے ذریعے یونان پہنچنے کے بعد، انہوں نے ایتھنز کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک استاد کی مدد سے کمپیوٹر کوڈنگ کے کورس میں داخلہ لیا۔
انہیں کمپیوٹر کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا نہ اسے آن کرنا آتا تھا، نہ کوڈنگ کے بارے میں معلومات تھی، اور نہ ہی انگریزی زبان آتی تھی، جو اس میدان کے لیے لازمی ہے۔ وہ کہتے ہیں: مجھے انگریزی کا بالکل اندازہ نہیں تھا، میں مکمل طور پر صفر تھا... اور اُسی وقت یونانی بھی سیکھ رہا تھا۔