لاہورکاایک چوک،جہاں بھگت سنگھ کو یاد کیا جاتا ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-03-2021
لاہور کا شادماں چوک
لاہور کا شادماں چوک

 

 

 

پاکستان کے لاہورمیں کل مجاہد آزادی بھگت سنگھ کو یاد کیا گیا،ان کی شہادت کو یاد کیا گیا ،ان کی قربانی کو یاد کیا گیا۔پاکستان میں ایسا صرف لاہور کے اس بھگت سنگھ چوک پر ہی ہوتا ہے۔جسے ان کی شہادت کے 88 سال کے بعد ان سے منسوب کرنے کی ہمت کی گئی ۔یہ وہی مقام ہے جہاں23مارچ 1931 کو برطانوی سامراج سے ہندوستان کے عوام کی آزادی اورنجات کےانقلابی ہیرو بھگت سنگھ اوران کےدو ساتھیوں سکھ دیواور شیوا رام راج گرو کولاہورسینٹرل جیل میں پھانسی پرلٹکا دیا گیا تھا۔ مگراس عظیم انقلابی کوایک چوک اپنے نام کرانے کےلئے 88سال تک انتظار کرنا پڑا۔

یوں تولاہورکےاس سابقہ شادمان چوک پرہرسال شہید بھگت سنگھ کو یاد کیا جاتا ہےلیکن ہرسال شدت پسندوں کی جانب ۔سے ایسا کرنے پر خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔حیرت ک بات یہ ہے کہ اسی سرزمین پر جنم سے شہادت تک لینے کے باوجودپاکستان نے ایک چوک کو بھگت سنگھ سےموسوم کرنے میں نو دہائی کا وقت لے لیاجبکہ اسی ملک میں اب بھی انگریزوں کے نام پر شہربشمول ایبٹ آباد ، جیک آباد اور جیمس آباد موجود ہیں لیکن بھگت سنگھ پورنہیں۔

کیا دیا پاکستان نے؟

ایک پاکستانی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لاہور میں جس جگہ اب شادمان کا فوارہ چوک ہے، قریب قریب یہیں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ کچھ لوگوں نے سرکار سے یہ فرمائش کی کہ اس چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھ دیں۔ پہلے تو حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا۔مگر2012میں ایک بڑا فیصلہ لیا گیا تھا  کہ ان کے مکان کو قومی یادگار کا درجہ ملے گا اور چوک کو نام ۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں مذہبی شدت پسندوںکے دبائو میں فرمائش سے جان چھڑا لی گئی تھی۔اللہ بھلا کرے ان طبقہ کا جو بھگت سنگھ کےلئے جدوجہد کرتا رہا۔2018میں لاہور کی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ چوک کے نام کا حتمی فیصلہ کرے تب اس کے ایک سال کے بعدانتہائی بے بسی اور بد دلی کے ساتھ اس کو بھگت سنگھ چوک کا نام دیا گیا تھا۔

ایک اور پاکستانی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ستمبر 1907 کو لائل پور(پنجاب پاکستان) میں پیدا ہونے والا نام بھگت سنگھ جس کو مذہب سکھ مت رکھنے کی بنیاد پر تاریخ میں جگہ نہیں دی گئی۔

بہرحال اس مقام اور اس دن کے ساتھ کچھ ایسی یادیں اب بھی زندہ ہیں جن کا ذکرجتنی بار کیا جائے کم ہوگا۔ جس رات پھانسی کی تیاری تھی وہ ان مجاہدین آزادی کےلئے تو بھاری نہیں تھی جنہیں پھانسی دی جارہی تھی لیکن جو اس عمل میں شامل تھے ان کےلئے قیامت کا سماں تھا۔ان یادوں کا ذکر لاہور والے کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔

awaz

جب مجسٹریٹ کا انکار

تاریخ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دراصل لاہور شہر میں داتا دربار کی اذانیں مدھم پڑیں توجیل میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ کوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کےلئے تیار نہیں تھا ۔ ڈیوٹی پہ موجود مجسٹریٹ نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈپٹی نوکری بچانے کی خاطر قصور کے ایک اعزازی جج، نواب محمد احمد کو لایا اور اسی نے حکم نامے پہ دستخط کئے۔مگرنواب قصوری کو اسی جگہ قتل کیا گیا تھا ، جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی تھی ۔ اس جیل کو بعد ازاں توڑ دیا گیا تھا اور آج وہاں لاہور کا شادمان چوک ہے ۔

چل کر آئے تھے تختہ دار تک

جب پھانسی کاوقت آیا تو پہ تینوں اپنے پیروں پر چلتے ہوئے نمودار ہوئے،ان میں سے ایک نے انگریز سرجن کو مخاطب کر کے کہا صاحب دیکھ لو، ہندوستان میں لوگ اس طرح موت کو گلے لگاتے ہیں جلاد نے ٹہوکا دیا اور فاتحانہ مسکراہٹ اچانک کالے نقاب میں چھپ گئی۔ گھڑی کی بڑی سوئی ، چھوٹی سوئی سے تھوڑا ہی پیچھے تھی جب ایک ہاتھ ہوا میں لہرایا اور تین جسم پھندے پہ جھول گئے۔ یہ سات تیس کا وقت تھا۔

جیل کی دیوار توڑی گئی

رات کی تاریکی میں جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر ان زندہ شہیدوں کے مردہ جسموں کو نکالا گیا، گنڈا سنگھ والا کے مضافات میں چتا جلائی گئی اور راکھ ستلج کے پانی میں بہا دی گئی۔آج اس سرزمین پر اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہیں اورانہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔جبکہ  ہندوستان ے ایک عظیم شاعر

  جوش ملیح آبادی نےاس عظیم مجاہد آزادی کو کچھ اس انداز میں یاد کیا تھاکہ ۔۔۔

وہ بھگتؔ سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے 

   اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے 

 اہل آزادی رہا کرتے تھے کس ہنجار سے

پوچھ لو یہ قید خانوں کے در و دیوار سے