خواتین کی تعلیم ۔۔۔ وقت کی اہم ضرورت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 15-04-2024
خواتین کی تعلیم ۔۔۔ وقت کی اہم ضرورت
خواتین کی تعلیم ۔۔۔ وقت کی اہم ضرورت

 

زیبا نسیم: ممبئی 

دنیا ایک تعلیم گاہ ہے، ایک مدرسہ ہے، ایک سیکھنے کی جگہ، تمام انسان طالب علم ہیں، انبیائے کرامؑ خصوصی شاگرد ہیں اور تمام انسانوں کو پیدا کرنے والی ذات ہی معلّم ہے، دنیا کی پیدائش ہی تعلیم کے مقصد سے ہوئی ہے۔مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر تعلیم سب پر ضروری ہے، سب پڑھیں، سب بڑھیں یہی مذہب اسلام کا اولین حکم ہے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے پڑھو اور وحی نبوتؐ کی زبان سے یہ فرمان بھی جاری ہوتا ہے: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ خود خالق کائنات نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔

 قرآن کریم  اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم  نے  مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کے حق کی برابر وکالت کی ہے ۔ بغیر کسی مرد و عورت کی تفریق کے قرآن نے تمام مسلمانوں کو علم کے حصول میں کوشش کا حکم دیا ہے۔قرآن مسلسل مسلمانوں کو فطرت میں خدا کے نشانیوں کو پڑھنے، سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مرد اور عورتوں دونوں کے لیے تعلیم کی حوصلہ افزائی کی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ علم کی طلب ہر مسلم مرد اور عورت پر دینی فرض ہے۔اس کے مرد ہم منصب کی طرح، ہر خاتون کی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری کے تحت علم کی تلاش کرنا، اپنی عقل کو فروغ دینا، اپنی نظر کو وسیع کرنا، اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا اور پھر اپنی صلاحیتوں کا اپنی روح و اپنے معاشرے کے لیے مفید استعمال کرنا دینی فرض ہے۔

محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں کی تعلیم میں دلچسپی اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ خود مردوں کہ ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔محمد ﷺ کی تعلیم دونوں جنسوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر سیکھی جاتی تھیں، بمطابق، محمد ﷺ کی وفات کے وقت عورتوں میں اسلام کی بہت سی عالمہ تھیں۔  اس کے علاوہ، محمد ﷺ کی بیویوں - خاص طور پر عائشہ رضی اللّٰہ عنھا نے عورتوں اور مردوں دونوں کو پڑھایا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے ساتھیوں نے عائشہ رضی اللّٰہ عنھا سے قرآن، حدیث اور اسلامی فقہ (فقیہ) کو سیکھا۔ خاص طور پر، حاصل کردہ علم کی نوعیت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ایک خاتون علم کے کسی شعبے کو منتخب کرنے کو آزاد تھی۔  چونکہ اسلام تسلیم کرتا ہے کہ خواتین اصل میں بیویوں اور ماؤں کا کردار ادا کرتی ہیں، ان شعبوں میں علم کا حصول جو خاص طور پر زور دیا گیا تھا۔

عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ناگزیر ہے، وہ دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے مزین اور آراستہ ہوں، آج معاشرے کو اچھی، ہم درد خواتین ڈاکٹرز کی بھی شدید ضرورت ہے

تعلیم نسواں کی آج کے دور میں بہت اہمیت ہے۔ عام کہاوت ہے کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں میں یکسانیت اور برابری لازمی ہے۔ اگر علم مرد کی عقل کو روشن کرتا ہے تو عورت کی عقل کو بھی علم سے جلا ملتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین نے کہا تھا کہ آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری وصیتوں میں عورتوں کے حقوق سے متعلق وصیت فرمائی۔ ان پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا۔ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے تعلیم عورت کا حق ہے اور ہر عورت کو اس کا حق ملناچاہئے۔ اگر اس کے حق کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اس پر تسلط‘ جبر و دباؤ کا رویہ اختیار کریں تو یہ سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی ہے‘ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے اعمال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں‘ اخلاص نیت کے ساتھ اصلاح کی طرف توجہ کریں اور حال و ماحول کو پر امن و پر سکون بنائیں۔