آکولہ: گھر گھرعلم کی شمع روشن کر رہی ہیں خواتین

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-10-2021
   علم کی شمع روشن کر رہی ہیں آکولہ کی خواتین
علم کی شمع روشن کر رہی ہیں آکولہ کی خواتین

 


شاہ تاج خان، پونے

مہاراشٹر کے اکولہ ضلع میں گولی( gowli) سماج میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے دو خواتین 1982سے سرگرم عمل ہیں۔اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انہوں نے شہر جاکر نوکری کرنے کے بجائے وہیں اپنے چھوٹے سے شہر اکولہ کے گولی پورا محلہ میں بچوں کو تعلیم دینے کو فوقیت دی۔ نسرین بانو سے آواز دی وائس نے بات کی

علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد

مہاراشٹر کیCast and tribes فہرست میں گولی سماج Nomedic Tribes میں شامل ہے۔گولی سماج سے تعلق رکھنے والی نسرین بانو نے جب تاریخ میں ایم اے مکمل کیا تو اُن کے پاس کئی مواقع تھے۔وہ اپنا کیریئر بنانے شہر جاسکتی تھیں،لیکن انہوں نے اپنے چاروں طرف تعلیم کے تئیں بے توجہی کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔

اِس لیے نسرین بانو نے اپنے ہی گولی پورا محلہ میں پیرا ماؤنٹ کلاسز کی بنیاد رکھی اور بچوں کو تعلیم دینے کا سلسہ شروع کیا۔گولی پورا محلہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اِس سماج میں جانوروں کو پالنے اور دودھ فروخت کرنا عام ہے۔مزدوری اور کھیتوں میں کام کر کے زندگی کی گاڑی کو جیسے تیسے کھینچ رہے ہیں۔نسرین بانو کا کہنا ہے کہ 80کی دہائی میں لڑکیوں کی تعلیم تو بہت دور کی بات تھی،لڑکوں کی تعلیم کو بھی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی۔تھوڑی بہت پڑھائی کرکے لڑکے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کر لیتے تھے يا پھر کھیتوں کھلیانوں پر مزدوری شروع کردیتے تھے۔نسرین بانو کی کوششوں سے لوگوں نے بچوں کو اُن کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجنا شروع کیا۔انہیں آج بھی یاد ہے کہ ابتدا میں صرف چار بچے ہی پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑا تھا۔نسرین بتاتی ہیں کہ یہاں سے پڑھنے کے بعد کئی بچوں نے شہر جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کی تب مجھے تو حوصلہ ملا ہی ساتھ ہی پورے محلے کے لوگوں کو ترغیب ملی کہ تعلیم حاصل کرکے قسمت کو بدلا جا سکتا ہے۔

 awaz

اُٹھو،پڑھو اور بڑھو

نسرین بانو کی چھوٹی بہن شبانہ پروین نے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کرنے کے بعد نسرین بانو کی مہم اور جدجہد کو رفتار دینے کی غرض سے اپنا تعاون دیا۔شبانہ پروین کی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ہُنر سکھانے کے لیے سینٹر کا آغاز ہوا۔نسرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ہم نے لڑکیوں کے لیے سلائی کڑھائی،مہندی اور کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔تاکہ لڑکیوں کو کھیتوں پر مزدوری کے لیے نہ جانا پڑے بلکہ عزت کے ساتھ وہ گھر پر رہ کر بھی اپنی فیملی کو مالی تعاون دے سکیں۔

مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا

نسرین آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران بتاتی ہیں کہ ہمارے سماج میں تعلیم کا رواج عام نہیں تھا۔لیکن ہمارے والدین نے ہمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔پڑھائی کے دوران ہی میں کبھی کبھی بچوں کو پڑھایا کرتی تھی۔میں نے محسوس کیا تھا کہ تعلیم سے دوری کا ایک اہم سبب غریبی ہے۔ والدین چاہتے تو ہیں لیکن مجبور ہیں۔تب سرکاری پروگرام اور مراعات کے متعلق معلومات کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔انہیں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنےسے حالات بدلے جا سکتے ہیں۔بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے سرکاری اسکیمیں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔نسرین آگے کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں سے پڑھ کر آگے جانے والے بچے خوب نام کما رہے ہیں۔جسے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔

awaz

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے

ہندوستان بھر میں تعلیم کے فروغ کو لےکر لوگ بیدار ہوئے ہیں۔لیکن ہمارے گولی سماج میں حالات بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔نسرین کہتی ہیں کہ ترقی کا ایک ہی راستہ ہے کہ تعلیم حاصل کی جائے۔وہ جذباتی ہوتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمارے پاس جتنی جگہ تھی اس میں ہم نے بچوں کے لیے تعلیم اور لڑکیوں کے لیے تربیتی کورس شروع کیے ہیں لیکن اتنی کوشش کافی نہیں ہے۔حالانکہ گولی سماج میں بھی بدلاؤ آ رہا ہے۔مگر اُس کی رفتار بہت دھیمی ہے۔نسرین کو پوری اُمید ہے کہ اندھیرے میں تعلیم کا جو چراغ انہوں نے روشن کیا ہے ایک دن گولی سماج میں تعلیم سے ہزاروں چراغ روشن ہوں گے۔اور ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں خدمات انجام دیں گے۔