آواز دی وائس:افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد خواتین کو مخلوط تقریبات سے روکے جانے اور لباس کے ساتھ پردے کی پابندی کے معاملات پر احتجاج کرنے والی کچھ خواتین ٹوئٹر پر روایتی افغان لباس کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ایک مہم چلا رہی ہیں۔
کابل کی ایک تاریخ دان ڈاکٹر بہار جلالئی کی جانب سے افغان خواتین کے ثقافتی لباس سے متعلق یہ مہم ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی جب چند روز قبل کابل یونیورسٹی میں سینکڑوں باحجاب خواتین نے طالبان کی جانب سے صنفی معاملات پر اختیار کردہ پالیسیوں کی حمایت میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔
Love seeing so many #Afghan women posting photos wearing colourful clothes in response to the black garments at #Kabul university yesterday. Here are a few more. #colorsofafghanistan pic.twitter.com/AaR7j3JLgl
— Stefanie Glinski (@stephglinski) September 12, 2021
امریکہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان سے تعلقات کا جائزہ لے گا‘ ڈاکٹر بہار جلالئی کی ٹوئٹر مہم میں جہاں خود کو افغان خاتون کے طور پر متعارف کرانے والے ہینڈلز نے روایتی قبائلی طرز کے لباس میں تصاویر شیئر کیں وہیں غیر افغان صارفین کی جانب سے بھی مختلف تصاویر اور سلوگنز کے ذریعے اس میں شرکت کی۔
Me wearing traditional Afghan attire in Kabul. This is Afghan culture and this is how Afghan women dress. @RoxanaBahar1 pic.twitter.com/fUZSqy4rRK
— Waslat Hasrat-Nazimi (@WasHasNaz) September 12, 2021
ابتدائی ٹویٹ پر ردعمل دینے والی خواتین ٹویپس نے اپنی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان میں دکھائی دینے والے لباس کو ’روایتی افغان لباس‘ یا ’افغان ثقافتی لباس‘ قرار دیا وہیں پردے کو افغان لباس کا حصہ ماننے سے انکار کیا۔
— Sodaba سودابه (@SodabaH) September 12, 2021
Inspo @RoxanaBahar1 🇦🇫 pic.twitter.com/cj3FxfzROT
مینا ذکی نامی ایک ہینڈل نے لباس سے متعلق مہم میں ایکٹو ہینڈلز کو مینشن کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی تو اسے ’روایتی افغان لباس‘ قرار دیا اور چہرہ ڈھانپے ہوئے ایک ایموجی شیئر کرتے ہوئے اس کے متعلق کہا کہ یہ افغان لباس نہیں ہے۔
— Tahmina Tomyris (@TahminaTomyris) September 12, 2021