افغان ویمن فٹبال ٹیم: 'رونالڈو'کے دیش 'پرتگال' میں ہوگئی آباد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-10-2021
افغان ویمن فٹبال ٹیم
افغان ویمن فٹبال ٹیم

 

 

لزین: افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغان لڑکیوں کی فٹبال ٹیم اپنے ملک کو چھوڑ کر عالمی شہرت یافتہ فٹبالر رونالڈو کے ملک منتقل ہو گئی ہے۔ٹیم کی رکن 15 سالہ سارہ کا کہنا تھا کہ اپنا وطن افغانستان چھوڑنا تکلیف دہ تھا لیکن اب وہ بحفاظت پرتگال میں پیشہ ورانہ بنیادوں پر فٹبال کھیلنے کا خواب پورا کرنے کے لیے پرامید ہیں اور شاید کسی دن اپنے پسندیدہ اسٹار کرسٹیانو رونالڈو سے مل رہی ہے۔

دارالحکومت لزبن کے مضافات میں فٹ بال کی ٹریننگ ایک مرتبہ پھر شروع کر دی ہے۔ 19 ستمبر کو پرتگال پہنچنے والی افغان خواتین کھلاڑیوں کو اس بات کی بھی بے حد خوشی ہے کہ انہیں ایسے ملک میں رہنے کا موقع ملا ہے جہاں سے کرسٹیانو رونالڈو جیسے نامور فٹ بالرز کا تعلق ہے۔

 سارہ افغانستان کی یوتھ فٹبال ٹیم کے اسکواڈ کی ان کئی کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو اگست میں طالبان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد خوف سے اپنے ملک سے بھاگنے پر مجبور ہو گئیں۔خیال رہے کہ طالبان عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے برعکس خواتین کو کھیلوں میں شرکت کی اجازت دینے سے انکاری ہیں۔

پرتگال نے اس مشکل وقت میں افغانستان کی ان نوجوان فٹبالرز کو پناہ دی ہے۔

 اپنی والدہ اور ٹیم کی دیگر کھلاڑیوں کی ہمراہ دریائے ٹیگس پر لزبن کے تاریخی بیلم ٹاور کا دورہ کرنے والی سارہ نے کہا کہ میں اب آزاد ہوں، میرا خواب ہے کہ میں رونالڈو جیسی اچھی کھلاڑی بن سکوں اور میں یہاں پرتگال میں ایک بڑی کاروباری خاتون بھی بننا چاہتی ہوں۔

انہوں نے ایک دن وطن واپسی کی امید بھی ظاہر کی تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا وہ اسی وقت کریں گے جب انہیں یقین ہو کہ وہ آزادانہ زندگی گزار سکیں گی۔واضح رہے کہ طالبان رہنماؤں نے خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن ان کی پہلی حکومت کے دوران خواتین کام نہیں کر سکتی تھیں اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تھی، گھروں سے نکلتے وقت عورتوں کو اپنا چہرہ ڈھانپنا پڑتا تھا اور ایک مرد رشتہ دار کا ساتھ لازمی تھا۔

ایک سینئر طالبان عہدیدار نے 15 اگست کو ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاید خواتین کو کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے اور اس سے ان کی جسامت نمایاں ہو گی۔

 افغانستان کی سینئر قومی ٹیم کی کپتان فرخندہ محتاج نے کہا کہ ٹیم کو افغانستان سے نکال کر پرتگال لانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی پسند کا کھیل کھیلیں۔کینیڈا میں اپنے گھر سے ایک مقامی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ فٹبال کوچ کے طور پر کام کرنے والی فرخندہ انخلا کے عمل کے دوران لڑکیوں سے ساتھ رابطے میں رہیں، وہ کُل 80 افراد کے انخلا میں کامیاب رہے جس میں خواتین یوتھ ٹیم اور ان کے اہلخانہ شامل ہیں۔

 یہ نوجوان لڑکیاں 19 ستمبر کو پرتگال پہنچی تھیں۔ فرخندہ محتاج نے کہا کہ یہ لڑکیاں بہت سارے چیلنجز سے گزری ہیں لیکن اب اپنی برداشت اور تحمل کی وجہ سے وہ یہاں تک آنے میں کامیاب رہیں۔خواتین فٹبالر کی ایک رشتے دار 25 سالہ ذکی رسا نے کابل ہوائی اڈے پر افراتفری کو یاد کرتے ہوئے شکر ادا کیا کہ وہ اب پرتگال میں ہیں اور اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں کچھ بھی صورتحال غیریقینی ہے البتہ یہ ہے بات اہم ہے کہ ہم محفوظ ہیں۔

کھیل کا ایک بار پھر آغاز

خواتین فٹ بال ٹیم کی سینیئر کھلاڑیوں کو شدت پسندوں نے دھمکی دی تھی اور کچھ کو تو طالبان نے مارا بھی تھا۔ ان میں سے کئی کھلاڑی اگست کے آخر میں آسٹریلیا چلی گئیں تھیں۔

افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران رہنے والے اپنے دور اقتدار میں طالبان نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے یا میچ دیکھنے جانے پر پابندی لگائی تھی۔ تاہم گذشتہ 15 سالوں میں افغانستان میں خواتین کی فٹ بال ٹیم منظر عام پر آنا شروع ہوئی اور اس وقت سے ملک میں اس کھیل کا رجحان بہت بڑھا ہے۔ ڈنمارک میں مقیم سابق قومی کپتان خالدہ پوپل جو اب قومی ٹیم کی مینیجر ہیں نےبتایا تھا کہ ’فٹ بال فیڈریشن میں مختلف سطحوں پر تقریباً تین سے چار ہزار خواتین اور لڑکیاں ریجسٹرڈ تھیں۔

‘ لیکن وہ سب ایک رات میں ختم ہوگیا جب افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا۔ ام البنین، ان کی ساتھی کھلاڑی اور ان کے اہلِ خانہ نے جس وقت افغانستان چھوڑا تھا ان کے پاس ذاتی سامان کے نام پر زیادہ کچھ نہیں تھا، یہاں تک کہ ان کے پاس اپنے فٹ بال کٹس بھی نہیں تھے۔ لیکن ٹیم کی کپتان فرخندہ محتاج نے ان کا یہ مسئلہ حل کردیا۔ انہوں نے کنیڈا سے پرتگال تک کا سفر کر کے ٹریننگ سیشن سے ایک دن پہلے کھیل کا ضروری سامان ڈلیور کردیا تھا۔