تسمیدہ جوہر:ہندوستان کی پہلی خاتون روہنگیا گریجویٹ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2023
تسمیدہ جوہر:ہندوستان کی پہلی خاتون روہنگیا گریجویٹ
تسمیدہ جوہر:ہندوستان کی پہلی خاتون روہنگیا گریجویٹ

 

 

نئی دہلی: زندگی سب کو یکساں مواقع نہیں دیتی۔ ہر انسان کی زندگی کی جدوجہد بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سوچیں اگر آپ کو اپنا نام، اپنا گھر، اپنا ملک دو بار تبدیل کرنا پڑے تو کیا آپ ان خوابوں کو پورا کر پائیں گے جو آپ نے دیکھا تھا؟ مشکل ہے نا؟ لیکن اس دشوار گزار سفر کے بعد بھی اپنے ملک میانمار سے بنگلہ دیش اور پھر ہندوستان آنے والی 26 سالہ تسمیدہ جوہر نے وہ خواب پورا کیا جو اس نے کبھی تعلیم حاصل کرنے کا دیکھا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ تعلیم آزادی تک پہنچنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔

یہ نوجوان روہنگیا لڑکی پہلے اپنے ملک میانمار میں ظلم و ستم سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ پہنچی، بعد میں اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان چلی آئی اور اب وہ ہندوستان کی پہلی روہنگیا گریجویٹ خاتون بن گئی ہے۔ تسمیدہ جوہر نے بی اے کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے تحت اوپن یونیورسٹی سے اس نے ڈگری حاصل کی ہے۔ اب وہ ولفرڈ لاریئر یونیورسٹی، ٹورنٹو کے تصدیقی خط کا انتظار کر رہی ہے۔ جس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے کینیڈا جائیگی۔

تسمیدہ جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نام ان کا اصل نام نہیں ہے۔ نام تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ آپ روہنگیا نام کے ساتھ میانمار میں رہ کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ کہتی ہے ’’میرا نام تسمین فاطمہ ہے لیکن میانمار میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ کا روہنگیا نام نہیں ہو سکتا، آپ کا بدھسٹ نام ہونا ضروری ہے، اس لیے مجھے اپنا نام تبدیل کرنا پڑا۔ وہ مزید کہتی ہے "میری اصل عمر 24 سال ہے لیکن میرایواین ایچ سی آر کارڈ 26 بتاتا ہے۔ میانمار میں روہنگیا والدین عموماً ہماری عمر دو سال بڑھا دیتے ہیں تاکہ ہم جلد شادی کر سکیں۔ 18 سال بعد شادی کرنا مشکل ہے۔

وہ کہتی ہے کہ میانمار کے لوگوں کے لیے روہنگیا برادری کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔ اسکول میں ہمارے لیے الگ الگ کلاسز تھیں۔ ہم امتحانی ہال میں سب سے دور بینچ پر بیٹھتے تھے۔ دسویں جماعت میں ٹاپ کرنے کے بعد بھی آپ کا نام میرٹ لسٹ میں نہیں آئے گا۔ اگر کوئی روہنگیا کالج جانا چاہتا ہے تو آپ کو ینگون جانا ہوگا۔

ان مشکلات کی وجہ سے روہنگیا بچے تعلیم تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی وہ اپنی تعلیم کے اس سطح تک پہنچ سکتے ہیں جہاں میں آج ہوں۔ وہ مزید کہتی ہے کہ ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہم پڑھائی تو کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔ ہم وہاں سرکاری دفاتر میں نہیں بیٹھ سکتے اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔