سائرہ نے کیسے اپنے ہاتھوں سے بدلی اپنی تقدیر

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-09-2021
سائرہ بانو
سائرہ بانو

 

 

محمد اکرم / حیدرآباد

انسان کے حالات کبھی یکساں نہیں رہتے، ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں،زندگی میں اتار چڑھاو ہونا کوئی بعید از قیاس نہیں ہے، تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کو کبھی بھی مایوس نہیں ہوناچاہئے۔ اگر حالات خراب ہوں تب بھی ہمت سے کام لیتے ہوئے مثبت قدم اُٹھانا چاہئے۔

 اگر مصیبت خواتین پر آئے تو وہ مزید باہمت ہوجاتی ہیں، ایسی ہی ایک مثالی خاتون 'سائرہ بانو' ہیں، جن کا تعلق ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے ہے۔

سائرہ کہتی ہیں کہ میں ایک حاجی خاندان سے ہوں۔ اچھے خاندان کے ساتھ میرے تعلقات رہے ہیں، تاہم وقت اور حالات نے مجھے بہت پریشان کیا، میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، اب صورتحال بدل گئی ہے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

سائرہ کی شادی کے بعد اس کے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتے چلے گئے، انھوں نے شادی کے بعد مصیبتوں کا ایک لمبا دور دیکھا ہے۔

سائرہ کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اپنے سسرالی گھر کو چھوڑ کر حیدرآباد چلی آئیں۔ گاؤں سے نکلتے وقت کچھ کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر آج ان کی زندگی میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

آج سائرہ حیدرآباد کی خواتین کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔ حیدرآباد شہر کے قدیم علاقے(مال پورہ، سید آباد، چارمینار) میں اپنے بچوں کے ساتھ رہنے والی سائرہ بانواب روزانہ 500 سے 1000 افراد کے لیے کھانا بناکر فروخت کرتی ہیں۔

سائرہ بانو 2008 میں ریاست کرناٹک کے تاریخی شہر بیجا پور سے اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ حیدرآباد آئی تھیں۔ اس کے کافی دنوں بعد تک وہ  بہت پریشان رہیں اور ادھر ادھر بھٹکتی رہیں۔

سائرہ بانو کہتی ہیں کہ حیدرآباد آنے کے بعد کچھ دنوں تک میری سمجھ نہیں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے،ان دنوں حالات اتنے خراب تھے کہ ایک ایک دن میرے لیے گزارنا مشکل ہو رہا تھا اور بعض اوقات یہ خیال بھی آتا تھا کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ زہر کھا کر خودکشی کر لوں۔

ان حوصلہ شکن حالات میں بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک جگہ کام کرنے لگیں، جس کے عوض انہیں کچھ تنخواہ ملنے لگی اور وہ اپنا گزارا کرنے لگیں۔

جب وہ حیدرآباد آئی تھیں تو ان کےبچوں کی عمریں بالترتیب اس طرح تھی: تین ماہ ، ڈھائی سال ، سات سال ، دس سال اور بارہ سال۔

یہ 2008 کی بات ہے۔ اب تمام بچے بڑے ہو چکے ہیں۔ ان میں سے دو بیٹے اور بیٹیاں ماں کے کاروبار کو بڑھانے میں مصروف ہے۔

سائرہ بانو کہتی ہیں کہ ایک دن جب وہ ایک درگاہ کے باہر بیٹھی تھیں تو انہوں نے کھانا تیار کرنے اور سپلائی کرنے کا سوچا۔

اس کے لیے انھوں نے کان میں پہنی ہوئی سونے کی بالیاں فروخت کردیں اور ضروری اشیا خرید کر کھانا بناکر اسے فروخت کرنا شروع کر دیا۔

ابتداً انھوں نے 50 افراد کے لیے کھانا تیار کر فروخت کرنا شروع کیا، اس کے بعد دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پھر ایک وقت ایساآیا کہ سائرہ بانو کھانا پکانے لگیں اور ان کے بچے اسے گھروں اور دفاتر میں پہنچانے لگے۔

awaz

خیال رہے کہ شہر حیدرآباد میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو کام یا پڑھائی کے سلسلے میں وہاں رہ رہی ہے۔

سائرہ ان کے لیے کھانا تیار کرتی ہیں۔ گھر کا پکا ہوا کھانا ہونے کی وجہ سے لوگ اسے پسند کرنے لگے۔

کھانا اچھا ہونے کی وجہ سے، ان کے بنائے ہوئے کھانے کا مطالبہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اب ہزاروں لوگوں تک اپنے ہاتھوں سے پکائے ہوئے کھانے پہنچانے میں مصروف ہیں۔

سائرہ کہتی ہیں کہ اب کھانے کا آرڈر کئی ہفتے پہلے سے آنا شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے شادیوں اور پارٹیوں میں چکن ، مٹن اور ویج بریانی کی سپلائی بھی شروع کر دی ہے۔ وہیں انھوں نے کھانا پکانے کے لیے بہت سے لوگوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔

سائرہ بانو اپنے جیسی صورت حال سے متاثرہ خواتین کی ایک مثال بنی ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں، کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔انہیں نامساعد حالات کے درمیان مسائل حل ہوتے ہیں۔