الیفیا:ایک 'نابینا' پروفیسر کی 'روشن زندگی'کی کہانی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-08-2021
ایک نابینا خاتون کے جدو جہد کی کہانی
ایک نابینا خاتون کے جدو جہد کی کہانی

 




محمد صفی شمسی، کولکاتہ

 بینائی سے محرومی آنکھوں کے سامنے یقینا تاریکی لے آتی ہے،لیکن اگرانسان چاہے تومعذوری اور لاچاری کو کوسوں دور چھوڑ سکتا ہے۔ 

 وہ نہ صرف اپنی زندگی کو مصروف اور با مقصد بنا سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے ایک مثال بھی قائم کرسکتا ہے۔ 

ضرورت ہوتی ہے اپنی معذوری کو کمزوری نہ بننے دیا جائے۔خود کو ترس اور رحم کا عادی نہ بنایا جائے۔

ان راستوں پرحوصلے اور ہمت سے سفر کیا جائے جو آپ کی فطری صلاحیت کی بنیاد پر کامیابی کی منزل پر پہنچا سکتی ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال کولکاتہ کو روشن کررہی ہے۔جہاں ایک نابینا خاتون ’’الیفیا تنڈےوالا ‘‘نے پی ایچ ڈی کی بلکہ آج وہ علم سیاسیاست کی تعلیم دے رہی ہیں۔

الیفیا تنڈےوالا پیدائشی طور پر نابینا ہیں، جب وہ پیدا ہوئیں تو انہیں آنکھوں کی ایک خاص بیماری ریٹنائٹس پگمنٹوسا(Retinitis Pigmentosa) تھیں۔ یہ آنکھوں کی ایک ایسی خطرناک بیماری ہے، جس میں انسان کےآنکھ کی روشنی چلی جاتی ہے۔

الیفیا تنڈےوالا جب تک ہائی اسکول پہنچیں تو ان کے آنکھ بینائی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی مگر بلند حوصلہ خاتون نے اپنی آنکھوں کی کمزوری کو کبھی اپنی کمزوری بننے نہ دیا۔

اس کے بعد انھوں نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی اور وہ شمالی کولکاتہ کے ایک کالج میں علم سیاسیات ( political science ) شعبہ کی سربراہ ہیں۔

کالج ٹیچر ہونے کے اہل ہونے کے لئے انھیں بہت زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑی اوراس جدوجہد میں ان کی زندگی کے کئی سال گزر گئے۔

تاہم جب انھوں نے تعلیم کے بعد ملازمت کے لئے درخواست دی تو ان کی درخواست کو رد کر دیا گیا اور ان سے کہا گیا ہے وہ معلمہ بننے کے بجائے کتابیں تصنیف کریں۔

الیفیا تنڈےوالا بتاتی ہیں کہ میں صرف اس صورت میں محسوس کر سکتی ہوں جب روشنی ہو۔

انھوں نے کہا کہ آٹھویں یا نویں جماعت تک میں سورج کی تیز روشنی میں لکھ اور پڑھ سکتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ صلاحیت بھی ختم ہوتی چلی گئی۔

الیفیا تنڈےوالا اپنے تینوں بہن بھائیوں میں سے وہ سب سے بڑی اولاد تھیں، ان سے چھوٹا دس برس کا بھائی بھی قوت بصارت سے محروم تھا۔

ان کے بھائی نے بھی انہی کی طرح تمام مشکلات کے خلاف جدوجہد کی،قانون کے موضوع پرگریجویشن کیا۔

بھائی کو بھی اسکالرشپ مل گئی تو بیرون ملک چلا گیا اورپی ایچ ڈی مکمل کی۔ اب وہ ایک یونیورسٹی میں قانون پڑھاتے ہیں۔

میں ایک انٹرویو کے لئے ان کی قیام گاہ پر گیا۔

یہ ایک خوبصورت عمارت کی ساتویں منزل پر ایک اچھی طرح سے سجایا ہوا اپارٹمنٹ ہے۔ بوہرہ  برادری کی طرز زندگی کے عین مطابق ان کے ڈرائنگ روم میں صوفے کے علاوہ بیٹھنےکے لئے نرم قالین بھی بچھا ہوا  ہے۔

الیفیا تنڈےوالا بتاتی ہیں کہ ایک ڈاکٹر نے میرے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ مجھے کسی خاص اسکول میں نہ رکھا جائے۔

اسی مناسبت سے میں نے ایک عام اسکول سے رابطہ کیا جہاں ابتدائی طور پر مجھے داخلے سے انکار کردیا گیا تھا۔ کیوں کہ میں آنکھوں سے معذور تھی۔ میری آنکھوں نے آنسو نکل جاتے تھے۔ مجھے ماحول کے اپنے موافق کرنے میں کافی وقت لگ گیا۔

الیفیا کہتی ہیں کہ بارش اور سیاہ دن ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر اگر یہ امتحانات کے آس پاس ہوتا تواسکول کے دنوں میں اس کی بینائی کم روشنی میں مکمل طور پر بند ہو جاتی تھی۔

میرے اساتذہ اس کو دیکھ کر مجھ کو نمبر دیا کرتے تھے۔

جب اسکول کے فائنل امتحان میں شرکت کا وقت آیا تو بورڈ کی جانب سے کہا گیا کہ میں امتحان کے دنوں میں کسی لکھنے والے کو لےکر بیٹھنا ہوگا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے کسی اور نے میرے لئے لکھنےتھا۔

الیفیا تنڈےوالا کی ایک دوست نے اسکول اور کالج کے امتحانات کے دنوں میں ان کی مدد کی۔

اس کے آگے وہ دوست اس کا ساتھ نہ دے سکی۔

راہیں الگ ہوگئیں ۔کالج کے بعد یونیورسٹی تک اس کا ساتھ نہ رہ پایا۔

جس کے سبب یونیورسٹی میں الگ مشکلات تھیں، وہ تنہا تھی اور اسے اکیلے ہی مقابلہ کرنا تھا۔

 وہ یونورسٹی کا حال بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ کہ محکمے کے سربراہ کی اجازت سے میں نے کلاس میں دیئے جانے والے لیکچرز ریکارڈ کرنا شروع کر دیئے۔

ایک استاد نے مجھے ریکارڈنگ کرتے دیکھا اوراس پراعتراض کیا۔

کچھ اور لوگ بھی تھے جنہوں نے اعتراضات اٹھانا شروع کر دیئے۔ یہ تکلیف دہ تھا.

اس کے بعد، مجھے صرف ان اساتذہ کے لیکچر ریکارڈ کرنے کو کہا گیا، جو منظوری دے رہے تھے۔

الیفیا نے 2002 میں قومی اور ریاستی امتحان پاس کیا جس نے اسے کالج میں تدریس کا اہل بنا دیا۔ 2004 میں انہوں نے جونیئر ریسرچ فیلوشپ حاصل کرنے کے بعد اپنے پی ایچ ڈی پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا۔ 2005 میں، اسے ایک کالج میں پڑھانے کی پیشکش ملی جس میں اسے آنے جانے کے لئے کئی گھنٹے سفر کرنے کی ضرورت ہوتی۔ 2007 میں بالآخر انہیں شمالی کولکاتہ کے ساوتری گرلز کالج میں تدریس کی پیشکش کی گئی۔

محکمہ کی سربراہی کے علاوہ، الیفیا تنڈےوالا اپنے کالج کی نیشنل سروس اسکیم پروگرام آفیسر بھی ہیں۔ وہ مسلمانوں کے حالات کے تئیں پریشان ہیں اور اس تعلق سے ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مسلمان ایک منتشر برادری ہے۔

 الیفیا نے’’عصری مغربی بنگال میں مسلمان شناخت کی تلاش میں‘‘کے موضوع پرمقالہ لکھا تھا۔اس حقیقت کو سامنے لائیں کہ زبانوں اور فرقوں کی بنیاد پر کئی تقسیمیں ہیں۔

انھوں نے اس سلسلے میں مدرسہ کی تعلیم، کمیونٹی کی ملکیت والے اخبارات اور مسلم اداروں اور ادب کے بارے میں معلومات حاصل کی۔

اس میں ناخدامسجد ، مسلم انسٹی ٹیوٹ ، ہگلی امام بارہ اور فرفررہ شریف وغیرہ کا مشاہدہ تاکہ ان کے کتاب لکھنے کا منصوبہ مکمل ہوگیا۔

اس سلسلے میں وہ کہتی ہیں کہ ابتداً بات چیت کرنا مشکل تھا ، لیکن مجھے مثبت جوابات ملے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ بحران کے وقت کمیونٹی مضبوط ہوتی ہےتاہم جب چیزیں معمول پر آتی ہیں، امتیازی شناخت دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں۔ ان نتائج نے انہیں کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔

تاہم یہ منصوبہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے رک گیا۔ اب وہ اس پر دوبارہ کام کر رہیں اور اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کر رہی ہیں۔اس میں دوبارہ لوگوں سے ملنا شامل ہے۔

میں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے لیکن اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ جب وہ اسکول اور کالج کے دوران مشکلات کے خلاف لڑتی تھیں تووہ آزاد ہونا چاہتی تھیں۔

الیفیا کا خیال ہے کہ اگر بچے مخلص اور پرعزم ہوں تو زندگی میں بہتر کام کرنا ممکن ہے۔ میں مدد کے لئے جدوجہد کرتا تھی،ان دنوں، بہت سی معلومات دستیاب ہیں، جن تک اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر کے ساتھ آسانی سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

بریل اب بھی اسکول کے بچوں کے لئے مفید ہے۔ لیکن اب کمپیوٹر اور سافٹ ویئر تک رسائی رکھنے والا کوئی بھی طالب علم اپنا کیریئر بنا سکتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کا احترام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان پر ترس کھائیں۔

وہ عام طور پر درس و تدریس میں مصروف رہتی ہیں۔

اس سے پہلے فلموں کی آڈیو سننا ممکن تھا۔ تاہم، وہ اس بات کا حساب ضرور رکھتی ہیں کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔

میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے لئے کامیابی کیا ہے؟

تو ان کا جواب تھا کہ ’’ اس وقت آپ جو کچھ پوچھ رہے ہیں یہی میری کامیابی ہے ‘‘۔

 اگرمیں نے آپ کے لئے کچھ بنا لیا تو سمجھوں گی کہ میں کامیاب ہوں۔

آخر میں وہ کہتی ہیں کہ میرے لئے حاصل کی گئی چھوٹی چھوٹی چیزیں میرے لئے کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

اس کے علاوہ ایسا کچھ نہیں ہے جس پر میں خود کومکمل طور پر کامیاب کہہ سکوں؛ یہ سب تصوراتی باتیں ہیں۔