ان سے ملئے ! یہ ہیں سعودی کی پہلی یوگا انسٹرکٹر ‘ پدم شری’ نوف مروائی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
نوف مروائی
نوف مروائی

 

 

آواز دی وائس 

اب یوگا کی مقبولیت مکہ مدینہ تک پہنچ چکی ہے،عالم اسلام کے دو سب سے مقدس شہروں میں اب جدید یوگا اسٹوڈیو کھل چکے ہیں۔سعودی عرب میں یوں تو اب یوگا کو کھیل کے زمرے میں شامل کرلیاگیا ہے مگر اس سرزمین پریوگا کےلئے جدوجہد کی ایک طویل کہانی ہے ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کا مرکزی کردار ایک خاتون ہیں۔جنہیں دنیا ’نوف مروائی‘کے نام سے جانتی ہے۔یہ جان کرآپ کو حیرت ہوگی کہ نوف مروائی کی بے انتہا کوشیشوں اور جدوجہد نے ہی تمام تر مخالفت اور ناراضگی کے باوجود یوگا کو تسلیم کرایا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات کو سلام کرتے ہوئے حکومت ہند ملک کا سب سے بڑا شہری ایوارڈ ’ پدم شری’ سے نواز چکی ہے۔جو انہیں دو سال قبل جدہ میں ہندوستانی کونسلیٹ میں دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ نوف کو سعودی عربیہ میں یوگا کی پہلی سرٹی فائیڈ یوگا انسٹرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ نوف مروائی کے مطابق ملک ميں يوگا پر پابندی کے خاتمے کے کچھ ہی ماہ بعد مکہ اور مدينہ سميت کئی بڑے شہروں ميں يوگا اسٹوڈيوز کھل چکے ہيں۔

awazurdu

نوف مروائی کو 2018 میں پدم شری سے نوازا گیا تھا

 سعودی سرزمين پر يوگا کو عام شہريوں ميں مقبول بنانے کے لئے نوف مروائی کی جدوجہد ہمیشہ سرخیوں میں رہی ہے۔ عرب يوگا فاؤنڈيشن کی اڑتيس سالہ سربراہ کو یوگا پریم کےلئے معاشرے کےطعنے برداشت کرنے پڑے۔ برا بھلا سننا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے ہراساں کيا گيا اور نفرت انگيز پيغامات موصول ہوئے۔ مروائی کے بقول پانچ سال قبل سعودی عرب ميں يوگا سکھانا نا ممکن تھا۔ نوف مروائی سينکڑوں عورتوں کو يوگا سکھا بھی رہی ہيں اور کئی کو اسے سکھانے کی تربيت بھی دے چکی ہيں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ قدامت پسند دھڑوں ميں يوگا کو اب بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو اسے چڑيلوں کے عمل سے بھی تعبير کيا جاتا ہے۔ يہ سننے کو ملتا ہے کہ وہ اپنے مذہب سے کنارہ کشی کر رہی ہيں۔نوف مروای کی ایک شاگردہ بودور حمود بتاتی ہيںکہ سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر پيغامات موصول ہوتے ہيں کہ آيا ميں ہندو ہوں يا ميں نے اپنا مذہب ترک کر کے ہندو مذہب اپنا ليا ہے۔ مگر میں جانتی ہوں کہ يوگا کا مذہب سے کوئی تعلق نہيں، يہ تو بس کھيل يا ورزش کی ايک شکل ہے۔

 یوگا کو اپنانے والی سعودی خواتین کےلئے یہ تجربہ بہت ہی مثبت رہا ہے۔ انہیں بڑی بڑی جسما نی کمزریوں سے نجات ملی۔ اس نے کئی عورتوں اور لڑکيوں کی زندگياں تبديل کر دی ہيں۔ طب کے شعبے سے وابستہ بتيس سالہ آيت سمن کے بقول وہ کئی سال سے’فائبرو ماياگليا‘ نامی ايک ايسی بيماری ميں مبتلا تھيں، جس کی وجہ سے وہ بستر کی ہو کر رہ گئی تھيں۔ درد کی وجہ سے وہ کچھ نہيں کر پاتيں مگر یوگا نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔ سعودی عورتوں کے بقول يوگا کی ورزش ايک تھیراپی کے طور پر کام کرتی ہے۔ وہ اس ورزش کے ذريعے جذباتی طور پر بھی کہيں زيادہ آزاد محسوس کرتی ہيں۔

awazurdu

 سعودی عرب ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جہاں بیرونی دنیا کی ثقافت اور نظریات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اور مملکت میں یوگا متعارف کروانے کی کوشش کرنے والی خاتون نوف مروائی سے بہت یہ بات کون جانتا ہے۔ اگرچہ یوگا اب دنیا کے اکثر ممالک میں مقبولیت اختیار کر چکا ہے مگر یوگا انسٹرکٹر نوف مروائی نے جب سعودی عرب میں اسے متعارف کروانے کی کوشش کی تو ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ بالکل حیران رہ گئیں۔

نوف مروائی نے یوگا سکھانے کا سلسلہ کئی سال سے شروع کر رکھا تھا مگر مملکت میںاس وقت تک صورتحال یہ تھی کہ یوگا پر ایک طرح سے پابندی ہی تھی۔ لوگ نوف مروائی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے ۔مگر صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی گزشتہ سال نومبر میں اس وقت آئی جب حکومت نے فیصلہ کیا کہ یوگا کو بھی کھیلوں میں شمار کیا جائے گا ۔

 اب سعودی عرب کے بڑے شہروں میں یوگا سکھانے والے سنٹر کھلنے لگے ہیں اور خصوصاً نوجوان اسے سیکھنے کی جانب مائل ہونے لگے ہیں۔ مملکت میں یوگا کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کرنے والی نوف مروائی کو اس جدوجہد کےلئے ضرور یاد رکھا جائے گا ۔ ان کی ’عرب یوگا فاﺅنڈیشن‘ اب تک سعودی عرب میں سینکڑوں یوگا انسٹرکٹروں کو ٹریننگ فراہم کر چکی ہے اور یوگا کے فروغ کےلئے دن رات کام کررہی ہے۔