میوزک ٹیکنیشین بننے سے قبل ساجدہ بیگم نےکی تھی جدوجہد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
ساجدہ بیگم بن گئیں حیدرآباد کی شان
ساجدہ بیگم بن گئیں حیدرآباد کی شان

 

                                                                                  مردوں کا تسلط توڑنے والی بلند حو صلہ خاتون ہیں ساجدہ بیگم*    
                 حکومت ہند نے انہیں ’پہلی خاتون میوزک ٹکنیشین‘کے ایوارڈ سے بھی نوازا  *   
                مسلم طبقہ و سماج  میں اس طرح کی بیداری وقت کی اہم ضرورت ہے۔   *   
               انڈسٹری میں صنفی امتیاز نہیں بلکہ خاتون ہونے سے زیادہ فائدہ ملا۔   *   
                                                           
  واجد اللہ خان / حیدر آباد
 ایسے ایک وقت جب بیشتر خواتین سرکاری ملازمتوں، بینکنگ شعبہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگی ہیں، حیدرآبادکی ساجدہ بیگم نے مردوں کے تسلط والی انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ساجدہ بیگم نے آڈیو انجینئرنگ اور موسیقی میں نہ صرف اپنی شناخت بنائی ہے بلکہ اپنے کام سے درجہ کمال حاصل کرتے ہوئے اپنا لوہا بھی منوایاہے۔ ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے انہیں ’پہلی خاتون میوزک ٹکنیشین‘کے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ یہ ایوارڈ صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے ذریعہ ان کو حاصل ہوا۔ ان کے سفر میں موسیقی کے لئے ان کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
آڈیو انجینئر بننے کا خیال کیسے آیا؟
 حیدرآباد کے مولا علی سے تعلق رکھنے والی ساجدہ کہتی ہیں کہ اسکول سے ہی انہیں میوزک انڈسٹری میں جانے کاشوق تھا۔ اسکولس کی اضافی نصاب سرگرمیوں، مقابلوں میں حصہ لینا ان کا شوق بن گیا تھا، ساتھ ہی حیدرآباد کی مشہور رویندر بھارتی تھیٹر میں ہونے والے مختلف مقابلوں میں حصہ لینے سے ان کا شوق پروان چڑھا۔  دوردرشن، آل انڈیا ریڈیو میں ہوئے مختلف پروگراموں اور مقابلوں میں بھی انہوں نے حصہ لیتے ہوئے بہتر مظاہرہ کیا۔
اس حوالہ سے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ اے پی سے تعلق رکھنے والے لوک گلوکار نے ان کے اس جذبہ کو دیکھ کر ان کو لوک موسیقی، روایتی موسیقی اور کئی طرح کی موسیقی کے بارے میں تفصیلات بتائیں جس سے ان کا شوق مزید بڑھ گیا اور کچھ نیا کرنے کا ان میں عزم پیدا ہوا۔تعلیم جاری رکھتے ہوئے کی گئی اپنی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ساجدہ کہتی ہیں: 'انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اینیمیشن کورس اور پھر پی جی ڈپلومہ کی تکمیل کی۔ بعد ازاں آڈیو ایڈیٹنگ اور کئی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا۔'
ساونڈ انجینئرنگ میں دلچسپی 
ساونڈ انجینئرنگ میں دلچسپی کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنی سہیلی کے ساتھ ایک اسٹوڈیو دیکھنے کا موقع ملا جہاں میوزک پر پروجیکٹ کی تیاری کی خواہش کی گئی تھی۔ وہاں سٹوڈیو انہیں بہت اچھا لگا۔آڈیو میں کام کرنے میں دلچسپی کے بارے میں بتاتے ہوئے خاتون آڈیو انجینئر کا کہنا ہے کہ آڈیو کے مختلف کورسس کی تکمیل کے بعد موسیقی کے بارے میں کئی چیزوں کو سیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے بعد اسی اسٹوڈیو میں میوزک ڈائرکٹر کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی گئی جس کو انہوں نے قبول کر لیا اور یہ کام تقریباً چار پانچ سال کیا۔
اپنے موجودہ پروجیکٹس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ اسٹوری بکس کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں لانا ہے۔ اس سے اس اسٹوری بک کے مصنف کو اپنی خود کی کہانی سننے کا موقع ملے گا۔اپنے کام کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اسٹوری بورڈنگ، آڈیو / ویڈیو ایڈیٹنگ کے کام کے ساتھ ساتھ کئی پروڈکشن ہاؤسس کے لئے فری لانسر کے طور پر کام کرنے کا انہیں اتفاق ہوا۔ ایک دہے کے دوران ساونڈ انجینئر کے ساتھ ساتھ جنوبی ہند کی کئی فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی۔
پیشہ وارانہ آڈیو انجئینئر کے طور پر فلموں میں ڈبنگ، ساونڈ، بیک گراونڈ میوزک، تلگو، تمل، ملیالم فلموں کے مکمل آڈیو مکس، جنگلز، گیتوں، ٹیلی سیرئیلس، ڈاکومنٹریز کے لئے بھی انہوں نے خدمات انجام دیں۔ ساجدہ نے تقریباً 6 تلگو، ہندی، تمل، ملیالم، بھوج پوری فلموں کی ڈبنگ کا کام بھی کیا اور اپنے کام پر کئی ایوارڈس بھی حاصل کئے۔ملک کی واحد خاتون میوزک ٹکنیشین کے طورپر بھی انہوں نے انٹرنیشنل آڈیو بک میں جگہ بنائی جس میں آڈیو انجئین سے متعلق ان کے سفر کی تفصیلات درج ہیں۔
کیرئیر کے طور پر موسیقی کو اختیار کرنا
اس حوالہ سے ان کہنا ہے 'کیرئیر کے طور پر موسیقی کو اختیار کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ ڈبنگ سے لے کر ریکارڈنگ، آڈیو مکسنگ کا کام کرتے ہوئے سرکردہ ہدایت کاروں داسری نارائن راو، تیجا، پوری جگناتھ کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی کئی میوزیکل المبس، ٹیلی سیرئیلس پربھی میں نے اپنی  چھاپ چھوڑی۔'ساجدہ نے تقریباً 40 طلبہ کو آڈیو فارمیٹ میں اپنی نظمیں ریکارڈ کرنے میں مدد دی۔ بعد ازاں ان کو یوٹیوب پر ریلیز کیا گیا۔ ان سب کارناموں کے باوجود ان کا ماننا ہے کہ آڈیو ٹکنیشین اور بالخصوص خاتون آڈیو ٹکنیشین کی خدمات کو عوام کی جانب سے تسلیم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔
 خاتون ہونے پر زیادہ کام ملا
 sajida begum
    ساجدہ خاتون، صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے ہاتھوں پہلی خاتون میوزک ٹکنیشین‘کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد                          
 
اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس انڈسٹری میں صنفی امتیاز کا سامنا نہیں ہوا بلکہ الٹا خاتون ہونے کا فائدہ ہی ملا اور لوگوں نے زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے زیادہ کام ان کے حوالے کیا۔اس انڈسٹری میں لڑکیوں کا آنا آسان ہے،یہاں کسی بھی قسم 
کا امتیاز بالخصوص جنسی امتیاز نہیں ہے۔ اس شعبہ میں آنے والی لڑکیوں کے گھر والوں کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جیسا کہ ان کے ساتھ ہوا کیونکہ اس کام کو سیکھنے کے لئے گھر والوں نے ان کی کافی حوصلہ افزائی کی۔'اس شعبہ میں لڑکیاں کافی کم ہیں اس میں لڑکیوں کو آنا چاہئے۔ ملٹی میڈیا کورس کی تکمیل لڑکیاں کرتی ضرور ہیں لیکن ان کو جاری نہیں رکھتیں۔ بعد ازاں کچھ دن کام کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔'
 صبر کی کمی
نیا نیا کام سیکھ کر آنے والے بچوں میں صبر کی کمی ہے اور وہ شارٹ کٹ کے ذریعہ مارکٹ سے جلد رقم کمانا چاہتے ہیں۔ ان میں ڈسپلن کی بھی کمی ہے۔ساجدہ نے کام کے طریقہ کے بارے میں بتایا کہ ہر ہدایت کار کی ہدایت کاری کا الگ نظریہ ہوتا ہے تو اسی نظریہ کی بنیاد پر ہم کو کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سمت کام کرتے ہوئے بہتر سے بہتر متوقع نتیجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ساجدہ نے تلنگانہ کے اضلاع میں تقریباً 100 ضلع پریشد اسکولس اور کالجس میں مختلف پروگراموں میں شرکت کی اور اس انڈسٹری میں آنے کے لئے بچوں میں دلچسپی پیدا کی۔ ساتھ ہی انہوں نے تعلیم کی تکمیل کرنے کے بعد رہنمائی کی بھی پیشکش کی۔اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے تو اپنا کام کر دیا تاہم اس تعلق سے طلبہ میں دلچسپی ہونی چاہئے۔ ان میں جوش وجذبہ کی ضرورت ہے۔
 مسلم طبقہ میں بیداری کی ضرورت 
آج کل کی لڑکیوں کی ترجیح مہندی ڈیزائننگ، بیوٹیشین، ٹیلرنگ کے کورسس ہوتے ہیں۔ ان کو خود میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسکولس سے ہی ہونا چاہئے۔لڑکیوں کو تعلیم کے ذریعہ با اختیار بنانے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں گی اور سماج کے لئے مثال بنیں گی۔ مسلم طبقہ و سماج  میں اس طرح کی بیداری وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایوارڈس 
ساجدہ کو 80 سے زائد ایوارڈس بشمول پریسیڈینٹ ایوارڈ 2018 اور تلنگانہ حکومت کا 2019 کا ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ ایک یونیورسٹی نے بھی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی ہے۔ 2015 سے لے کر اب تک انہیں یہ تمام ایوارڈس ملے۔ساجدہ نے PAN INDIA DIGITAL INDIA پروجیکٹس پر بھی کام کیا۔ انہوں نے ایک ملاقات میں مصنفین کو مشورہ دیا کہ میوزک، کلچر، آرٹس کی کتابوں کو آڈیو میں تبدیل کرکے ان کو پبلش کیا جائے جس کے لئے انہوں نے اپنی خدمات کی پیشکش کی۔ بعض کتابوں پر بھی وہ کام کر رہی ہیں۔
پروڈکشن اسٹوڈیو یا میوزک اسکول کھولنے کا ارادہ
حکومت کی جانب سے امداد پر پوسٹ پروڈکشن اسٹوڈیو یا میوزک اسکول شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان اسٹوڈیوز کے پوسٹ پروڈکشن میں لڑکیاں کام کریں۔
فی الحال ان کا حیدرآباد کے ملاپور ناچارم میں چھوٹا سے سیٹ اپ ہے۔ تاہم کاچی گوڑہ سری نگر کالونی میں اسٹوڈیوز میں وہ کام کرتی ہیں۔ حکومت کے بعض پروجیکٹس پر بھی انہوں نے کام کیا ہے۔
 کوویڈ کے بعد کی صورتحال
انہوں نے اس بارے میں کہا: 'کوویڈ کے سبب انڈسٹری میں خراب صورتحال ہے کیونکہ کام بند ہے۔ اس صورتحال سے باہر آنے کے لئے وقت لگے گا۔ کووڈ آنے کے بعد مارکٹنگ کا طریقہ اور سونچ کا طریقہ ڈیجیٹل پرتبدیل ہوگیا ہے۔ اسی طرح انڈسٹری کے لئے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہونے کی ضرورت ہونی چاہئے جس سے فنکار کو رقم کسی نہ کسی طریقہ سے ملنی چاہئے۔
'اس انڈسٹری کے لئے حکومت کو کچھ کرنا چاہئے۔ کوویڈ کی وجہ سے کام پر کافی اثر پڑا۔ پروڈکشن، اسٹوڈیوز کے کام رکے ہوئے ہیں۔ کورونا کا ٹیکہ آنے کے بعد کام شروع کرنے کے بارے میں لوگ سوچ رہے ہیں۔'بچوں کو اردو پڑھانے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہئے کہ روزانہ ایک گھنٹہ بچوں کو اردو پڑھائیں۔ مسلم بچوں میں تعلیم کی ضرورت ہے۔ ان کو آگے بڑھنے کے لئے تعلیم کا حاصل کرنا کافی ضروری ہے۔