اسلام میں خواتین کے حقوق اور سشکتیکرن

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 01-10-2024
اسلام میں خواتین کے حقوق اور سشکتیکرن
اسلام میں خواتین کے حقوق اور سشکتیکرن

 

 ڈاکٹر شبانہ رضوی

"Empowerment" کو اردو میں اختیار دینا یا بااختیار بنانا کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی شخص کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود مختارانہ طریقے سے کر سکے اور اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہوئے عمل کر سکے۔

اسلام میں خواتین کے حقوق اور ان کی حیثیت کا تصور بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس کے تحت خواتین کو عزت، مساوات، اور خود مختاری دی گئی ہے۔ اسلام میں خواتین کو معاشرتی، تعلیمی، معاشی، اور روحانی طور پر مردوں کے برابر حقوق دیے گئے ہیں۔

اسلام وہ دین ہے جو اپنی ابتدا سے ہی خواتین کو عزت اور حقوق دینے کا علمبردار رہا ہے۔ تاہم، غیر مسلم معاشروں میں مختلف ادوار میں خواتین کو مختلف طرح کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں پہلے  ہم  عورت کے مالی، معاشرتی وغیر اسلامی حقوق کا جائزہ لیں گے اور پھر اسلامک ہسٹری کی ان خواتین کی نشاندھی کریں گے جنھوںے مختلف شعبوں میں تعاون کیا۔

اسلام میں عورت کو معاشرتی حیثیتمیں بہت اہم مقام دیا گیا ہے۔ وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے طور پر عظیم عزت اور احترام کی حقدار ہے۔

اسلام نے بیوی کوخاندان میں ایک عظیم مقام دیا ہے اور اسے مرد کے برابر اہمیت دی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو

(سورۃ النساء: 19)

یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام میں شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہترین سلوک کرے

(سنن ترمذی)

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا معیار کیا ہے۔ بیوی کا مقام ازدواجی زندگی میں نہایت اہم ہے اور اسے مکمل مالی و معاشرتی حقوق فراہم کیے گئے ہیں، جیسے مہر، وراثت، اور نان و نفقہ۔قرآن:

اور ان کے لیے تمہاری طرف سے مناسب سلوک کرنا ضروری ہے۔" (قرآن 4:19)

حدیث: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو پہلے اپنی بیوی کو کھلائے۔" (ابن ماجہ)

 بیٹی کا مقام:

اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر بیٹی کو عزت و احترام دیا اور بیٹی کی پرورش کو جنت کی ضمانت قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

جس نے تین بیٹیوں کی اچھی پرورش کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا"(سنن ترمذی)

اس کے علاوہ، اسلام نے بیٹی کو وراثت میں حصہ دیا اور اسے تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی دیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراء (سلام اللہ علیہا) کے حوالے سے بیٹیوں کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔

 جب بھی حضرت فاطمہ (س) اپنے والد کے پاس آتیں، تو نبی اکرم (ص) انہیں کھڑے ہو کر خوش آمدید کہتے، اور ان کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دیتے۔

اسلام نے بیٹیوں کو جو مقام دیا ہے، وہ تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی کی علامت ہے۔ قرآن اور حدیث میں بیٹیوں کے حقوق اور ان کی عزت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔

اسلام میں عورت کو نکاح کا حق: بہت اہمیت کا حامل ہے اور قرآن و حدیث میں اس کا واضح ذکر موجود ہے۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف نکاح کرنے کا حق دیا بلکہ اسے نکاح میں اپنی رضا مندی کا اظہار کرنے اور اپنا شریکِ حیات چننے کی آزادی بھی عطا کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا:

کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر نہ کیا جائے

(صحیح بخاری)

اسلام میں عورت کو مہر کا حق دیامہر عورت کا حق ہے اور یہ اس کی مالی تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ نکاح کے وقت مہر ادا کرے، اور یہ عورت کی ملکیت ہوتی ہے۔

اور عورتوں کو ان کا مہر خوشدلی سے ادا کرو"(سورۃ النساء: 4)

طلاق کا حق:

اسلام نے عورت کو نکاح کے بعد بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف اختیارات دیے ہیں، جن میں طلاق کا حق بھی شامل ہے۔ اگر کسی وجہ سے ازدواجی زندگی میں اختلافات پیدا ہو جائیں تو اسلام عورت کو خلع لینے کا حق دیتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نباہ نہ کر سکے، تو وہ خلع طلب کر سکتی ہے۔۔۔(صحیح بخاری)

یہ تمام حقوق اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام میں عورت کا مقام بہت بلند ہے اور اسے معاشرتی اور ازدواجی زندگی میں مکمل عزت و حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔

قرآن و حدیث میں بیوہخواتین کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں جن کا مقصد ان کی عزت و وقار کی حفاظت اور ان کے معاشرتی اور مالی حقوق کو یقینی بنانا ہے۔

اسلام میں بیوہ عورت کو دوبارہ نکاح کرنے کی مکمل اجازت ہے، اور اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ قرآن میں کہا گیا ہے:

اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم ان بیوہ عورتوں سے نکاح کی خواہش ظاہر کرو یا دل میں انہیں خیال میں لاؤ"

(سورۃ البقرہ: 235)

اسلام میں بہنوں کا مقامبہت بلند ہے، اور انہیں عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بہنوں کے حقوق اور ان کے ساتھ سلوک کی وضاحت کی گئی ہے.

اسلام میں بہن کو وراثت میں حصہ دیا گیا ہے۔جو کہ نہ صرف معاش بلکہ اخلاقی بھی ہے:حدیث

تمہاری بہن کا تم پر حق اسے والدین کی وراثت سے ملا ہے اور  انتہائی بد نصیب ہے وہ شخص کی بہن ناراض ہو۔

ماں کا مقام اسلام میںبے حد بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف سے حمل میں رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اسے جنا"(سورۃ لقمان: 14)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔

جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے

(سنن نسائی)

اسلام نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق دیا ہے۔قرآن و حدیث میں بارہا علم کی اہمیت اور حصول علم کی تاکید کی گئی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"(سنن ابن ماجہ)

 اسلامی معاشرہ عورت کو علم کی روشنی میں آگے بڑھنے اور اپنے حقوق کا شعور حاصل کرنے کا پورا موقع فراہم کرتا ہے۔

مالی حقوق: وراثت اور خودمختاری

اسلام وہ واحد نظام ہے جس نے عورت کو مالی طور پر خودمختار بنایا۔اسلام نے خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے"(سورۃ النساء: 7)

اس کے علاوہ بیوہ کے وراثت میں حصے کے متعلق قرآن مجید میں واضح حکم موجود ہے:

اور تمہاری بیویوں کا تمہاری وراثت میں سے چوتھا حصہ ہے، اگر تمہاری اولاد نہ ہو؛ اور اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہاری بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔"( سورۃ النساء، آیت 12)

اسلام میں خواتین کا روحانی اخلاقی مقاممردوں کے برابر ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اور جو کوئی نیک عمل کرے گا، مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہو، ہم اسے بہترین زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا اجر دیں گے"(سورۃ النحل: 97)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔

عورتیں مردوں کی ہم جنس ہیں

(سنن ترمذی)

اسلام میں خواتین کے سماجی اور سیاسی حقوق:

 اسلامی تاریخ میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں تجارت، تعلیم، سیاست، اور سماجی اصلاحات شامل ہیں۔ یہاں اسلامی تاریخ کی چند اہم خواتین کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں:

  1. حضرت خدیجہ بنت خویلد

شعبہ: تجارت اور کاروبار

خدمات: حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)، جو رسول اللہ (ﷺ) کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں، مکہ کی ایک کامیاب تاجرہ اور شہر کی امیر ترین خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے بڑے تجارتی قافلے چلائے اور بہت سے افراد کو ملازمت دی، جن میں خود رسول اللہ (ﷺ) بھی شامل تھے۔ حضرت خدیجہ  کی کاروباری صلاحیت اور دیانتداری نے انہیں مردوں کے غالب معاشرے میں عزت و احترام کا مقام عطا کیا اور وہ ابتدائی اسلامی مشن کی اہم مالی معاون بنیں۔

  1. فاطمہ الفہری

شعبہ: تعلیم

خدمات: فاطمہ الفہری نے 859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس میں جامعہ القرویین کی بنیاد رکھی۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی قدیم ترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ فاطمہ الفہری کی تعلیم و تعلم کے ساتھ لگن نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر ایک مثبت ورثہ چھوڑا۔

  1. رفیدہ الاسلمیہ

شعبہ: طب اور نرسنگ

خدمات: رفیدہ الاسلمیہ کو اسلامی تاریخ کی پہلی خاتون نرس کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جنگوں کے دوران زخمی فوجیوں کے علاج کے لئے ایک موبائل کلینک قائم کیا اور اسلامی طب و نرسنگ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی دیگر خواتین کو بھی نرسنگ کی تربیت دی، جس سے ابتدائی مسلم معاشرے کا نظام صحت مضبوط ہوا۔

  1. شفاء بنت عبد اللہ

شعبہ: طب اور انتظامیہ

خدمات: شفاء بنت عبد اللہ ایک ماہر معالجہ تھیں اور اسلامی تاریخ کی ابتدائی خواتین منتظمین میں سے تھیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں مدینہ کی مارکیٹ کی نگرانی کے لئے مقرر کیا۔ ان کی کاروباری صلاحیت اور طبی مہارت نے انہیں ابتدائی مسلم معاشرے میں ایک اہم شخصیت بنایا۔

  1. رابعہ العدویہ

شعبہ: تصوف اور روحانیت

خدمات: رابعہ العدویہ ایک صوفی بزرگ تھیں جو اپنی اللہ کی محبت اور روحانیت کے لئے مشہور ہیں۔ وہ ابتدائی اسلامی تصوف کی اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ رابعہ کی روحانیت اور فلسفہ نے اسلامی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے، خصوصاً تصوف کی ترقی میں۔

  1. سیدہ الحُرّہ

شعبہ: سیاست اور سمندری قیادت

خدمات: سیدہ الحُرّہ 16ویں صدی کی ایک مراکشی حکمران اور ایک طاقتور بحری کمانڈر تھیں۔ انہوں نے جہازوں کے ایک بیڑے کی قیادت کی اور مشہور عثمانی بحری قزاق باربروسا کے ساتھ اتحاد میں کام کیا۔ سیدہ الحُرّہ دنیا کی چند ایسی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے "قزاقوں کی ملکہ" کا لقب حاصل کیا اور اپنے وقت کی بحیرہ روم کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔

10.شفاء بنت عبداللہ

قدیم دور میں مدینہ کے بازار کی انچارج حضرت شفاء بنت عبداللہ  تھیں۔  شفاءایک بہت ہی قابل اور تجربہ کار طبی ماہر تھیں، جو اپنے علاج کے لیے مشہور تھیں۔ ان کی قابلیت صرف طب تک محدود نہیں تھی؛ حضرت عمر فاروق  کے دور خلافت میں، انہیں مدینہ کے بازار کی نگرانی کا ذمہ سونپا گیا تھا۔

فوجی خدمات:

اسلامی جنگوں میں کئی ایسی خواتین نے شرکت کی جو اپنی بے مثال جرات، قربانی اور جذبۂ ایمانی کے باعث ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئیں۔ ان خواتین کا کردار صرف جنگی خدمات تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ مسلم معاشرے کے لیے ایک روشن مثال بنیں۔

1. حضرت نسیبہ بنت کعب

غزوہ احد: حضرت نسیبہ بنت کعب، جو ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں، اسلامی تاریخ کی سب سے مشہور اور بہادر خاتون ہیں جو جنگوں میں شامل ہوئیں۔ وہ غزوہ احد میں نبی کریم (ﷺ) کا دفاع کرتے ہوئے اپنے آپ کو ڈھال بنائے رکھیں۔ جب کچھ لوگ نبی (ﷺ) کے اردگرد سے ہٹ گئے، تو حضرت نسیبہ نے دشمن کے خلاف اپنی تلوار اور تیروں کا استعمال کرتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس جنگ میں انہیں کئی زخم آئے لیکن ان کی ہمت اور جرات نے دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

2. حضرت ام سلیم

غزوہ حنین: حضرت ام سلیم نے غزوہ حنین میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ تلوار باندھ کر رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئیں اور مسلمانوں کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ انہوں نے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کیا۔ حضرت ام سلیم کا جذبہ اور جانفشانی مسلمانوں کی عورتوں کے لئے ایک مثال بن گیا۔

3. حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب

غزوہ خندق: حضرت صفیہ، رسول اللہ (ﷺ) کی پھوپھی، نے غزوہ خندق میں دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب یہودی قبیلے کے کچھ دشمن قلعہ فارع میں دستک دینے پہنچے، تو حضرت صفیہ نے اپنے ہاتھوں سے ایک یہودی کو قتل کیا جو قلعے کی سرنگ سے مسلمانوں کی عورتوں پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ ان کے اس اقدام نے باقی دشمنوں کو ڈرا دیا اور انہوں نے قلعے کے قریب آنے کی ہمت نہ کی۔

4. حضرت خولہ بنت الازور

جنگ یرموک: حضرت خولہ بنت الازور ایک اور بہادر مسلم خاتون ہیں جو جنگ یرموک میں اپنے بھائی ضرار کے ساتھ شامل ہوئیں۔ جب ان کے بھائی کو دشمن نے قید کر لیا، تو حضرت خولہ نے اپنا چہرہ چھپا کر تلوار اٹھائی اور دشمن پر حملہ بول دیا۔ اپنی لڑائی کی مہارت اور ہمت کے ذریعے انہوں نے اپنے بھائی کو آزاد کروایا۔ حضرت خولہ کی جنگ میں شجاعت نے انہیں اسلامی تاریخ کی عظیم مجاہدات میں شامل کر دیا۔

5. حضرت ام حرام بنت ملحان

سمندری مہم: حضرت ام حرام ایک ایسی خاتون تھیں جو دریائی جنگ میں بھی شامل ہوئیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک مرتبہ انہیں بشارت دی تھی کہ وہ پہلی مسلم فوج کا حصہ ہوں گی جو دریا کے راستے جنگ کرے گی۔ اور یہ بشارت پوری ہوئی جب حضرت ام حرام قبرص کی جنگ میں شامل ہوئیں اور اسی دریائی سفر کے دوران ان کا انتقال ہوا۔

ان اور کئی دوسری مسلم خواتین نے جنگ میں شامل ہو کر اپنے جذبۂ ایمان اور قربانی کا اظہار کیا۔ ان کا کردار صرف گھریلو زندگی تک محدود نہیں تھا؛ بلکہ انہوں نے میدان جنگ میں بھی شجاعت کا مظاہرہ کرکے مسلمان عورتوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔

یہ خواتین،  اس بات کی غماز ہیں کہ اسلام نے ہمیشہ خواتین کی فعال شرکت کو مختلف شعبہ جات میں فروغ دیا ہے۔ ان کی تجارت، تعلیم، طب اور سیاست میں خدمات نے نہ صرف اسلامی معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک مثال قائم کی۔ ان کا ورثہ آج بھی تحریک اور روشنی کا ذریعہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین کو اختیار حاصل تھا اور وہ تاریخ کے دھارے کو موڑنے میں اہم تھیں۔

اسلام کو قدامت پسند سمجھنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید رہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اسے ہر قسم کی آزادی دی ہے، بس ایک دائرہ بنایا ہے جو خود اس کے تحفظ کے لیے ہے اور جو عورت اس پر عمل کرتی ہے، اس کے لیے یہ مفید ہے۔

ہمیشہ افغانستان اور طالبان کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟ آپ ایران , شام ،ایراق میں دیکھ لیں، وہاں کی خواتین فوج ایک زندہ مثال ہے کہ اسلام نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے ہیں علم اور ترقی کرنے کے لیے۔

عورت کی سب سے پہلی ترقی اس کے گھر میں ہونی چاہیے، چاہے وہ باپ کا گھر ہو یا شوہر کا۔ اس کے بعد معاشرے میں۔ اگر عورت کو اس کے واجب شرعی حقوق دے دیے جائیں تو اسے کبھی ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ ایک غیر محفوظ معاشرے میں محض خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لیے دربدر ہوتی پھرے۔

اسلام نے اسے پورے حقوق دیے ہیں، نفسیاتی، روحانی، معاشرتی، علمی، زندگی کے ہر حصے میں درپیش آنے والے مسائل اور ضروریات کے مطابق اسلام میں عورت کے لیے مخصوص ہدایت اور قانون موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مرد عورت کی حق تلفی نہ کریں۔ جو سلوک خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اسلامی قانون کی وجہ سے نہیں بلکہ مردوں کی ذہنی پستی کی وجہ سے ہے۔