حیض ۔ صرف خواتین کا نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔ دونوں جنسوں کو حساس ہونے کی ضرورت ، ڈاکٹر ثانیہ صدیقی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 16-05-2023
حیض ۔ صرف خواتین کا نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔ دونوں جنسوں کو حساس ہونے کی ضرورت ،  ڈاکٹر ثانیہ صدیقی
حیض ۔ صرف خواتین کا نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔ دونوں جنسوں کو حساس ہونے کی ضرورت ، ڈاکٹر ثانیہ صدیقی

 

شاہ تاج خان۔ پونے 

پیریڈز _شرم نہیں ،شمتا ہے۔۔۔۔۔۔

یہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ جو کہ ڈاکٹر ثانیہ صدیقی کی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے ۔ اس کے پیچھے کی کہانی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔۔

۔"میرے کلینک پر آنے والی اکثر خواتین اپنی ایک جیسی فکر اور پریشانی بیان کرتی ہیں۔ وہ متفکر مائیں سمجھ نہیں پا تیں کہ سن بلوغت کو پہنچ رہی اپنی بارہ تیرہ سال کی بیٹی کے ساتھ "حیض یا ماہواری " کے متعلق بنیادی اور ضروری معلومات پر گفتگو کیسے کریں ؟

مجھے بہت جلد یہ احساس ہوا کہ ماہواری , پیریڈز پر بات کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔پھر وہ " پیریڈز _شرم نہیں ،شمتا ہے" کے پیغام کے ساتھ دنیا کی آدھی آبادی یعنی خواتین کی ہمجولی بن گئیں۔

اس نعرے کے ساتھ حیض کے تئیں بیداری مہم کو ایک تحریک میں تبدیل کرنے والی ڈاکٹر ثانیہ صدیقی اب پونے بلکہ ملک میں محتاج تعارف نہیں رہیں ۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ حیض نہ صرف 'خواتین' کا مسئلہ ہے؛ بلکہ یہ ایک 'انسانی' مسئلہ ہے اور اس لیے دونوں جنسوں کو اس موضوع کے بارے میں حساس ہونے کی ضرورت ہے۔

ان کا اس سوچ اور فکر کے ساتھ  محرک ہونے کا نتیجہ تھا کہ 2018 میں ہمجولی فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا جو ایک این جی او ہے اور معاشرے کے تمام طبقات میں نوجوان لڑکیوں، خواتین اور مردوں میں ماہواری کی صحت اور حفظان صحت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر  ثانیہ صدیقی نے کہا کہ اِس موضوع کو اِس حد تک چھپا کرپردے میں رکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات مائیں بھی بیٹیوں سے اِس معاملے میں بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں ۔یہ موضوع آج بھی متعدد گھروں میں اشاروں کا محتاج  ہے ۔

awazurdu

سن2018 میں قائم ہمجولی فاونڈیشن نے خواتین کے ماہانہ مخصوص ایام اور نسوانی صحت کے موضوع پر پیشہ ورانہ انداز میں گفتگو کا آغاز کیا ۔اُن کی اِس بیداری مہم کو متعدد ہم خیال لوگوں كا ساتھ اور تعاون ملا ہے ۔اب تک دس مختلف شہروں میں تقریباً چار سو سے بھی زیادہ بیداری نشست کا اہتمام کرکے وہ ہزاروں خواتین کو ماہواری اور حفظانِ صحت کی بنیادی معلومات فراہم کر چکی ہیں  ۔

ماہواری کیوں ضروری ہے ؟

 ماہواری ،خواتین کی تولیدی صحت کا ایک اہم حصّہ ہے ۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ نئی نسل جنم لیتی ہے ۔پھر بھی اتنے اہم موضوع پر بات کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔

ہے خبری اور بغیر تیاری کے لاکھوں کروڑوں لڑکیاں بچپن سے گزر کر سن بلوغت میں قدم رکھتی ہیں ۔گھر میں والدہ یا بڑی بہن بھی ماہواری کے متعلق تب بات کرتی ہیں جب لڑکی کی پہلی ماہواری کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے ۔

ڈاکٹر ثانیہ بتاتی ہیں کہ جب ہم بچیوں سے بات کرتے ہیں تو ہم نے اکثر پایا کہ وہ اپنے پہلے تجربہ کو آج بھی نہیں بھولی ہیں۔معصوم اور نو عمر لڑکیوں نے اُس وقت جس درد،خوف اور تکلیف کو برداشت کیا تھا اس کی کسک اُن کے ذہن و دل پر ہمیشہ کے لیے اپنے نشان چھوڑ گئی ہے ۔

ان کا ماننا ہےکہ اگر بچیوں کو بنیادی معلومات وقت پر فراہم کر دی جائیں تو ان کے لیے ماہواری کے قدرتی عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ یہ اُن کی زندگی کا اہم حصّہ ہے ۔ پہلے سے معلومات کے سبب وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار بھی نہیں بنیں گی

awazurdu

پیریڈز میں شرم کیسی ؟

 ڈاکٹر ثانیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو ماہواری اور تولیدی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ہماری کوشش خواتین کے ساتھ مرد حضرات کو بھی اِس ضمن میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کی ہوتی ہے ۔ لوگ ابھی بھی کھل کر بات کرنے میں جھجکتے ہیں لیکن حالات اب بدل رہے ہیں ۔

وہ بتاتی ہیں کہ صرف سینیٹری پیڈ کا استعمال کرنے کی تلقین ہی کافی نہیں ہے ۔صفائی کا مطلب محض سینیٹری نیپکن کا استعمال کرنے سے ہی پورا نہیں ہو جاتا ۔ہم اپنے بیداری پروگراموں میں شرکت کرنے والوں کو مکمل صفائی جیسے غسل کرنا ،صاف انڈر گارمنٹس پہننا ،وقفہ وقفہ سے سینیٹری پیڈ تبدیل کرنا ،اپنے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھونا،پیڈ استعمال کے بعد  پیپر میں لپیٹ کر کوڑے دان میں ڈالنا، وغیرہ جیسی باتیں بھی ہماری گفتگو کا حصّہ ہوتی ہیں ۔

زیادہ تر خواتین ماہواری کے دوران نہانا ترک کر دیتی ہیں ۔جبکہ اِس وقت عام دنوں سے بھی زیادہ صاف صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اِس بات کے لیے اُن کے دماغ میں بیٹھی برسوں پرانی نہ نہانے کی روایت کو توڑنے کے لیے راضی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

 ڈاکٹر ثانیہ کہتی ہیں کہ ہم لڑکیوں سے بات کرنے کے لیے جب اسکولوں میں جاتےہیں تو وہاں بچیوں کی والدہ کے ساتھ بھی ملاقات کرتے ہیں ۔کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ تبدیلی ہمارے جیسی غیر سرکاری تنظیموں یا سرکار کے ذریعہ نہیں بلکہ گھر کے اندر سے ہی آئے گی ۔

علمِ حفظانِ صحت اور ہماری ذمّہ داری

 ڈاکٹر ثانیہ صدیقی نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر لڑکیاں ذہنی طور پر پیریڈز کے لیے تیار نہیں ہوتیں اور گھر میں بھی کھل کر بات نہ ہونے کے سبب اِس دوران پیش آنے والی دشواریوں کو کسی سے نہیں کہہ پاتیں۔

کبھی اپنی صاف صفائی تو کبھی پیریڈز کی بے قاعدگی انہیں پریشان کرتی ہے ۔یہی ہے احتیاطی اور چھوٹی چھوٹی پریشانیاں دھیرے دھیرے بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔اکثر یہ بے خبری سنگین بیماریوں کا باعث بنتی ہے ۔ماہواری کی بے ترتیبی کی وجہ سے متعدد لڑکیاں

poly cystic ovarian syndrome

کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ اگر لڑکیوں کو ہونے والی دقت کا وقت پر علاج کرایا جائے تو اِن معمولی مسائل کو ڈاکٹر کی صلاح سے بہت آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اِس کے لیے گھر میں اِس موضوع پر بات کرنے کے لیے ہمیں ماحول تیار کرنا ہوگا ۔

awazurdu

خاموشی کو توڑنا ہے

لڑکیاں جب سن بلوغت میں قدم رکھتی ہیں تو جسم میں آنے والی تبدیلیوں سے ہر خاتون کو گزرنا پڑتا ہے۔جس میں خواتین کی تولیدی صلاحیت کا فعال ہونا اور ماہواری کے قدرتی عمل کا آغاز ،اہمیت کا حامل ہے۔ہر ماہ ہونے والے اِن مخصوص ایام کا دور سن یاس تک جاری رہتا ہے

ڈاکٹر ثانیہ کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو صرف زبانی معلومات ہی نہیں دیتے بلکہ انہیں ایک کٹ یعنی اہم ضروریات کا ایک باکس  بھی دیتے ہیں ۔جس میں تین سے چھ ماہ تک کے لیے سینیٹری پیڈ ز ،انڈر گارمنٹس ،صابن ،استعمال شدہ پیڈ کو پھینکنے کے لیے لفافہ اور اِس کے ساتھ پیریڈز کے متعلق بکلٹ بھی دیتے ہیں جو اردو ،ہندی اور مراٹھی زبان میں ،کہانی کی شکل میں ہوتی ہے

 آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر ثانیہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ صاف صفائی اور سینیٹری نیپکن کا استعمال کرنا سیکھ جائیں اور اب تو اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے سینیٹری نیپکن کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔

وہ اسے ایک مثبت قدم مانتی ہیں ۔پھر بھی وہ اپنی تشویش اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ متعدد کوششوں کے باوجود  اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ محض بارہ فیصد خواتین ہی سینیٹری پیڈ ،ٹیمپون،ماہواری کپ وغیرہ کا استعمال کر رہی ہیں ۔

 ڈاکٹر ثانیہ صدیقی کے مطابق حفظان نسواں  کے تعلق سے سرٹیفکیٹ کورس بھی متعارف کرایا ہے جس میں اسکول کے اساتذہ ،کالج کے طلبا اور متعدد سنجیدہ مزاج اشخاص دلچسپی لے رہے ہیں اور ایک کثیر تعداد ہمجولی فاونڈیشن کے ساتھ مل کر ایک مضبوط ٹیم کی طرح لوگوں کو بیدار کرنے میں کوشاں ہے

awazurdu

یہ جنگ تنہا نہیں لڑی جاسکتی

 ڈاکٹر ثانیہ صدیقی کہتی ہیں کہ ہم  جیسے مختلف ادارے صرف لوگوں کو بیدار کر سکتے ہیں لیکن سہولیات فراہم کرنےکی ذمّہ داری سرکار اور انتظامیہ کی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اگراسکول کےنصاب میں ماہواری کےمتعلق تفصیلی معلومات فراہم کی جائیں تو بروقت بچوں کو معلومات مل سکتی ہیں،لیکن صاف،سادہ اور آسان زبان میں یہ معلومات واضح طور پر نصاب کا حصہ بنائی جائیں۔

 اسکولوں میں مناسب اور صاف بیت الخلاء ،پانی کی سہولت، کوڑے دان کی دستیابی وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی  کے سبب ہر مہینے لڑکیاں اسکول سے غیر حاضر رہتی ہیں اور کئی لڑکیاں اسکول ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

ڈاکٹر ثانیہ صدیقی سرکار اور اسکول انتظامیہ کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینے کی درخواست کرتی ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی طرح ماہواری سے متعلق معلومات ،ماہواری کے آغاز کے بعد نہیں بلکہ لڑکیوں کے سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی دینے کا بندوبست کرنا ہوگا ۔تاکہ لڑکیاں صحت مندزندگی گزارسکیں۔ہم اپنی جانب سے یہ کوشش کر رہے ہیں

محنت اور سراہنا

ڈاکٹر صدیقی نے ہندی اور اردو میں نوجوان لڑکیوں کے لیے پیریڈز کی تعلیم پر منفرد کتابیں تصنیف کی ہیں، جو کہانی کی شکل میں ہیں اور حیض کے تمام پہلوؤں کو آسان اور پرلطف انداز میں بیان کرتی ہیں۔

اردو کتاب کو ہندوستانی فوج، سری نگر رجمنٹ (چنار کور) نے اپنے ’مشن سدبھاونا‘ کے تحت نوجوان لڑکیوں میں بڑے پیمانے پر تقسیم کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ کئی اسکول بھی اس کتاب کو اپنے اساتذہ اور طلباء کو تعلیم دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

سن 2022 میں ماہواری اور حفظان صحت پر سب سے زیادہ  سیشن منعقد کرنے پر انڈیا بک آف ریکارڈز میں اندراج ہوا تھا

وہ ملک کے متعدد ممتاز پرنٹ اور آن لائن میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی تحریک کے تعلق سے مہمان بنتی رہتی ہیں ۔ انہیں اکثر مختلف ایف ایم  چینلز اور ٹاک شوز میں حیض اور حفظان نسواں موضوع پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

اس شعبے میں ان کے مثالی کام کے لیے انہیں 'بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ایوارڈ'، وومن آف انفلوئنس ایوارڈ، ایکسیلنس ایوارڈ اور ٹریل بلیزر آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

awazurdu