نکاح کے 29 سال بعداسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی، وجہ حیران کن

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2023
نکاح کے 29 سال بعداسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی، وجہ حیران کن
نکاح کے 29 سال بعداسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی، وجہ حیران کن

 

 

ترواننت پورم:ان کا نکاح، اسلامی ضابطے کے مطابق انتیس سال قبل ہوا تھا مگر اب وہ دوبارہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کرنے نہ جارہے ہیں۔ دولہا بھی وہی ہے اور دلہن بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے مگر شادی کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے۔یہ جوڑا دوبارہ شادی کیوں کر رہا ہے؟ وجہ جان کر حیرت میں پڑجائیں گے۔ کیرالہ کے کاسرگوڈ ضلع میں ایک مسلم جوڑا اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت دوبارہ شادی کرنے والا ہے۔

بتا دیں کہ جوڑے نے ایسا فیصلہ اپنی تین بیٹیوں کے مالی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کیا ہے۔ یہ شادی خواتین کے عالمی دن پر ہوگی۔ وکیل اور اداکار سی شکور کنچاکو بوبن اسٹارر فلم 'ننا تھان کیس کوڈو' میں ایک وکیل کے کردار کے لیے مشہور ہیں۔ ساتھ ہی ان کی اہلیہ شینا، مہاتما گاندھی یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر رہ چکی ہیں۔ دونوں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن پر دوبارہ شادی کریں گے۔

مغربی ممالک اور کچھ ہندو ذاتوں میں، جوڑے اکثر اپنی شادی شدہ زندگی کے چند سال بعد اپنے شریک حیات سے دوبارہ شادی کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں مقصد بالکل الگ ہے۔مسلم وراثت کے قوانین میں عائد بعض شرائط کی وجہ سے یہ جوڑا اپنی شادی کو دوبارہ رجسٹر کرنے کے لیے دوبارہ شادی کرنے جا رہا ہے۔ اسلامی قوانین میں کہا گیا ہے کہ بیٹیوں کو ان کے باپ کی جائیداد سے جو بھی حصہ ملے گا، وہ بھائیوں کے مقابلے میں آدھا ہوگا۔ اگر لڑکیوں کے سگے بھائی نہیں ہیں تب بھائی والا حصہ چچازاد بھائیوں کو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی احکام کے مطابق بیٹے کی تمام ذمہ داریاں بھی بھتیجے اٹھاتے ہیں۔

اب سی شکور اور ان کی بیوی ، جن کی شادی کو 29 سال ہو چکے ہیں، ایس ایم اے کے تحت اپنی شادی کو دوبارہ رجسٹر کروا کر حالات کو بدلنے کی امید کر رہے ہیں۔ ایک فیس بک پوسٹ میں، شکور نے کہا کہ میں نے سوچا کہ میں اپنی بیٹیوں کے لیے کیا چھوڑ کر جا ئوں گا اور کیا وہ میری تمام بچت اور دولت کی وارث ہوں گی۔ شکور کی تشویش یہ تھی کہ 1937 کے مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ اور عدالتوں کے ذریعہ اختیار کیے گئے موقف کے مطابق باپ کی جائیداد کا صرف دو تہائی حصہ بیٹیوں کے پاس جاتا ہے اور اگر کوئی مرد اولاد نہ ہو تو باقی حصہ بھتیجوں کو جاتا ہے۔

انہوں نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ شریعت کے تحت وصیت چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ شکور کے مطابق اس مشکل سے نکلنے کا واحد راستہ ایس ایم اے کے تحت شادی کرنا ہے۔ شکور کو امید ہے کہ اس کا فیصلہ مسلم خاندانوں میں بیٹیوں کے خلاف صنفی امتیاز کو ختم کرنے اور لڑکیوں کی خود اعتمادی کو بڑھانے میں مدد فراہم کرے گا۔

انہوں نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ ان کا دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کسی کو یا شرعی قانون کی غلط تشریح کرنا نہیں ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنی بیٹیوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جوڑا، جن کی 6 اکتوبر 1994 کو شادی ہوئی تھی، 8 مارچ کو کاسرگوڈ ضلع کے ہوسادرگا تعلقہ کے کنہا گڑھ میں سب رجسٹرار کے دفتر میں اپنی بیٹیوں کی موجودگی میں دوبارہ شادی کریگا۔ اس پورے معاملے کو کچھ لوگ کامن سول کوڈ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ شادی محض ایک خام خیالی ہے۔

دراصل مسلمان کی جائیداد اس کی موت کے بعد اسلامی قانون کے مطابق وارثوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اب مسلمان خواہ نکاح کرے یا اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کرے، فرق نہیں پڑتا۔ اگر مسلمان کے طور پر اس کی موت ہوئی تو وراثت بھی اسلامی قانون کے مطابق ہی تقسیم ہوگی۔ یہاں وصیت بھی کارگر نہیں ہوگی کیونکہ جو لوگ وراثت کے حقدار ہیں، ان کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ، جیتے جی اپنی جائیداد اپنی بیٹیوں کے نام کرجائے۔ ویسے سی شکوروالے کیس ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بیٹیوں کے حقوق کے تعلق سے مہم چلاتے رہے ہیں تاکہ والدین بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح نہ دیں۔

غور طلب ہے کہ کاسرگوڈ کے ایک نامور وکیل سی شکور نے اکتوبر 1994 میں ڈاکٹر شینا سے شادی کی اور ان کا نکاح انڈین یونین مسلم لیگ کے سپریم لیڈر پنکڑ سید حیدر علی شہاب تھنگل نے کروایا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ اب اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت دوبارہ شادی کرنے سے جائیداد کی جانشینی ہندوستانی جانشینی ایکٹ کے تحت ہوگی۔