غوث سیوانی، نئی دہلی
موجودہ کولکاتہ کی لارڈ سنہا روڈ پر واقع سخاوت میموریل گرلس اسکول یوں تو دوسرے سرکاری اسکولوں جیسا ہی ایک اسکول ہے۔ دوسرے اسکولوں کی طرح ہی یہاں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت جاری ہے اور یونیفارم میں بھی کچھ فرق نہیں ہے مگر تاریخ میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک تاریخ ساز اسکول ہے۔ یہ ہندوستان کا پہلا اسکول ہے جس کا قیام مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کیا گیا تھا اور اس نے بنگال کے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ میں بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔
اس کے قیام کے پیچھے ایک طویل کہانی بھی ہے۔ بیگم رقیہ ، ایک بنگالی قلمکار، حقوق نسواں کی علمبردار اور ماہر تعلیم تھیں۔ وہ اپنے وقت کے چند سائنس فکشن نویسوں میں سے ایک تھیں۔ ان کی کہانیوں میں ایک طرف خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آواز کی گرمجوشی تھی تو دوسری طرف پرامن طور پر مختلف دنیا تک پہنچنے کا نرم احساس۔ رقیہ کا خیال تھا کہ نوآبادیاتی ہندوستان میں رہنے والی خواتین، خاص طور پر مسلم خواتین، اس سے کہیں زیادہ کی مستحق ہیں جسے وہ تقدیر کا لکھا مان لیتی ہیں۔
رنگ پور(بنگلہ دیش)میں نصب بیگم رقیہ کا مجسمہ
بیگم رقیہ1880 میں اس وقت کے بنگال پریزیڈنسی کے رنگ پور میں ایک بنگالی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ان کا خاندان قدامت پسند تھا اور پردہ کے نظام کی سختی سے پیروی کی جاتی تھی لیکن رقیہ کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس نے مرد اور عورت کو الگ کر دیاہے۔
ایک متمول گھرانے سے ہونے کے باوجود ان کے خاندان میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا گناہ سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بیگم رقیہ کو قرآن سمجھنا آسان بنانے کے لیے انہیں صرف اردو سیکھنے کو کہا گیا۔ اس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ بنگلہ یا انگریزی سیکھنا خواتین کو غیر مانوس ثقافتوں اور مغربی طریقوں کی طرف لے جائے گا لیکن اپنی بہن کریم النسا کے ساتھ چھپ کر انہوں نے دوسری زبانیں سیکھنا شروع کردیں۔
کریم النسا کو علم و ادب سے بڑی دلچسپی تھی لیکن اس وقت کے رواج کے مطابق محض 14 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ اپنی بہن کے خوابوں کو اچانک اس طرح بکھرتے دیکھ کر رقیہ پر گہرا اثر ہوا اور یہیں سے ان کے حقوق نسواں کے نظریات متشکل ہونے لگے۔
جب رقیہ 1898 میں 18 سال کی تھیں تو ان کی بھی شادی ہوگئی۔ ان کے بڑے بھائی ابراہیم نے اپنی بہن کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ان کے لئے ایسے دولہے کی تلاش کی جو انہیں تعلیم سے نہ روکے اور گھر کی چہار دیواری کے اندر رہنے پر مجبور نہ کرے۔ بھاگلپور (بہار) کے ایک سرکاری اہلکار خان بہادر سخاوت حسین کے ساتھ وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں جن کی عمر رقیہ کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھی۔
شوہرنامدار تقریباً 40 سال کے تھے۔ انہوں نے رقیہ کی علم و ادب میں بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ان کے مشورے پر رقیہ نے اپنے تمام اہم کاموں کے لیے بنگالی زبان کو ترجیح دی۔ بیگم رقیہ کی ادبی زندگی کا آغاز 1902 میں ایک بنگالی مضمون کے ساتھ ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتی رہیں۔
۔ 1909 میں جب بیگم رقیہ کے شوہر کا اچانک انتقال ہو گیا تو انہوں نے شوہر کی میراث سے ایک اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مسلمان لڑکیوں کے لیے ہندوستان کا پہلا اسکول 'سخاوت میموریل گرلز ہائی اسکول' بھاگلپور میں قائم کیا۔ چونکہ تب لڑکیوں کی تعلیم کا رواج نہیں تھا لہٰذا انہیں سخت مخالفت کا سامنابھی کرنا پڑا اور مخالفت کی شدت کے سبب انہیں یہ اسکول 1911 میں کلکتہ (اب کولکاتہ) منتقل کرنا پڑا۔ آج بھی یہ اسکول کولکاتہ میں لڑکیوں کے سب سے مشہور اسکولوں میں سے ایک ہے۔
بیگم رقیہ کو لڑکیوں کو اسکول لانے کے لئے بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ وہ گھر گھر گئیں اور والدین کو سمجھایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کتنی ضروری ہے۔وہ ان خاندانوں سے ملیں جو لڑکیوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے تھے یا جو ان کی تعلیم کے خلاف تھے۔ پھر اکثر والدین نے یہ شرط رکھی کہ لڑکیاں صرف اس صورت میں پڑھنے جائیں گی جب ان کے پردے کا سختی سے خیال رکھا جائے۔ بیگم رقیہ نے اس کا پورا انتظام کیا۔
کلکتہ میں اسکول کا باضابطہ آغاز 1911 میں آٹھ طالبات کے ساتھ کیا گیا تھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ طالبات کے والدین سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے لڑکیوں کو اسکول آنے اور جانے کے لیے گھوڑا گاڑی کا انتظام کیا۔ اس گاڑی میں پردہ کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔
اس اسکول میں لڑکیوں کو بنگلہ، انگریزی، اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ جسمانی تعلیم، موسیقی، کھانا پکانا، ابتدائی طبی امداد، نرسنگ جیسی بہت سی چیزیں سکھائی جاتی تھیں۔ بیگم رقیہ ذاتی طور پر اسکول کے تمام کام کاج کی نگرانی کرتی تھیں اور اساتذہ کی تربیت کا پورا خیال رکھتی تھیں۔
رنگ پور(بنگلہ دیش) میں واقع بیگم رقیہ کے مکان کاکھنڈر
خواتین کی تعلیم پر بحث ومباحثے کی غرض سے انہوں نے انجمنِ خواتینِ اسلام کی بنیاد رکھی۔ بیگم رقیہ کا ماننا تھا کہ معاشرہ اور خاص طور پر خواتین میں تبدیلی کی شاہ کلید تعلیم ہی ہے۔ نوآبادیاتی حکمرانی، مذہبی انتہا پسندی اور ذات پات کے نظام سے نکلنے کے لئے سماج میں تعلیم کا فروغ لازمی ہے۔
بیگم رقیہ کی پیدائش 9 دسمبر1880کو ہوئی تھی اور محض باون سال کی عمر پاکر وہ 1932 میں کلکتہ میں انتقال کرگئیں۔
بنگلہ دیش میں ہر 9 دسمبر کو ان کی یاد میں 'رقیہ دیوس'منایا جاتا ہے اور انہیں غیر منقسم بنگال میں حقوق نسواں کے انقلاب کو فروغ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر یاد کیا جاتا ہے۔ بیگم رقیہ اگرچہ اس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب نہ پاکستان کا تصور تھا اور نہ بنگلہ دیش کا خیال۔ باوجود اس کے انہیں بنگلہ دیش میں خصوصی احترام دیا جاتا ہے۔
ان کے نام سے بہت سے تعلیمی اداروں کو منسوب کیا گیا ہے اورغیر معمولی کارنامے سرانجام دینے والی خواتین کو ’رقیہ پدک‘سے بھی نوازا جاتا ہے۔ تعلیم نسواں کے میدان میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے والی بیگم رقیہ متعدد کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ ان کی کتابیں آج بھی ان کے نظریات سے دنیا کو آگاہ کر رہی ہیں۔