کیرالہ : کہانی 6 بہنوں کے ڈاکٹر بننے کی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-11-2021
کیرالہ : کہانی 6 بہنوں کے ڈاکٹر بننے کی
کیرالہ : کہانی 6 بہنوں کے ڈاکٹر بننے کی

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

تعلیم ہی لڑکی کا زیور ہے،اگر لڑکی کو تعلیم یافتہ بنایا تو آپ جنت بھی کما لیتے ہیں۔لڑکی کی تعلیم معاشرے کے لیے سب سے اہم ہوتی ہے جو آنے والی نسل کو سنوارنے کی ضامن ہوتی ہے۔

آج کے دور میں معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے ،جس کے تحت ایک مثبت لہر چل رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی بیٹی کو بہتر سے بہتر تعلیم دلانے کی کوشش کررہا ہے۔ کیونکہ لڑکیوں نے اب ہر میدان میں اپنی موجودگی کا احسا س دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

 لڑکیوں کی تعلیم کی یوں تو کئی مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن ایک مثال کیرالہ نے بھی بنائی ہے۔ کیرالہ کے ضلع کاذیکوڈ کے گاوں ناداپورم کی چھ بہنیں ڈاکٹر بن گئی ہیں۔

اس علاقےکے رہنے والےاحمد کے کوٹی کی شادی زینہ احمد سے ہوئی۔ احمد جہیز کے مخالف تھے، انہوں نے جہیز کے بغیر شادی کی۔ شادی کے بعد ایک کے بعد دیگر انہیں بیٹیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ چھ بیٹاں پیدا ہوگئیں۔

چھ بیٹیوں کی پیدائش کے باوجود وہ لوگ مایوس نہیں ہوئے اور اپنی بچیوں کو تعلیم دلانا شروع کردیا۔ احمد بیٹوں کے تعلق سے مثبت سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے لیے ایک ایسی زندگی کا تصور کیا جس میں وہ معاشرے کی خدمت کریں اور دوسروں کے لیے بھی رول ماڈل بنیں۔

ان کی خواہش کو حقیقت بدلنے میں دیرنہیں لگی۔ان کی سبھی بیٹیوں نےاپنی پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وہ ڈاکٹربن گئیں۔ بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا خواب اب پورا ہونے جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ان کی چار بیٹیاں فاطمہ احمد( 39) ہاجرہ احمد( 33) عائشہ احمد( 30) اور فائزہ احمد پہلے ہی ڈاکٹروں کی پریکٹس کر رہی ہیں۔ جب کہ ریحانہ احمد(23) چنئی میں ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہیں اور ان کی سب سے چھوٹی امیرہ احمد منگلور میں اپنے ایم بی بی ایس کورس کے پہلے سال میں ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہےکہ ان کی چاربیٹیوں کی شادیاں ڈاکٹروں سے ہوئی ہے۔ فاطمہ کے شوہرڈاکٹر رشاد رشید، ہاجرہ کے ڈاکٹر اجنا محمد علی، عائشہ کے ڈاکٹرعبدالرحمٰن اور فائزہ کے ایجاس ہارون ہیں۔

زینہ ابھی بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں کہ ان کی شادی 12 سال کی عمرمیں چچازاد بھائی احمد سے ہوئی۔ ان دنوں وہ چنئی میں کاروبار کیا کرتے تھے۔ اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ قطر چلے گئے اور ایک ریفائنری میں ملازمت کرنے لگے۔

ان کی ایک بیٹئ ہاجرہ نے بی ڈی ایس کا کورس کیا ہے جب کہ باقی سب نے ایم بی بی ایس کا انتخاب کیا۔

ہاجرہ اپنے قطر کے قیام کو یاد کرتی ہیں، جب کہ اکثر شام کے اوقات میں ان کے والدین انہیں اپنی پڑھائی میں اچھا کرنےاورمعاشرے کی خدمت کرنے کی اہمیت پر زور دیا کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک بار جب وہ اسکول سے واپس آئیں تو خاندان کے کچھ لوگ جمع تھے اور ان کے والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان کی پڑھائی اور مستقبل کے تعلق سے گفتگو کررہے تھے۔

ہاجرہ نےکہا کہ میرے والد کو میڈیکل لائن پسند تھی۔ جب وہ ڈاکٹر نہیں بن سکے تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا۔ لیکن ان کے بھائی ٹیچر بن گئے اور وہ اب صوفی ٹیچرکےنام سے جانے جاتے ہیں۔

اس لیے فطری طورپراحمد کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک ان کے خواب کو پورے کرے۔

فاطمہ نےایم بی بی ایس کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد اس کی دوسری بہنوں کو میڈیکل کرنے کی ترغیب ملی۔ وہیں ان کی ایک بیٹی عائشہ قانون میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ تاہم ان کے والد نےسمجھایا کہ ایم بی بی ایس کا کورس مکمل کرنے کے بعد بھی قانون کی پڑھائی کرسکتی ہیں۔

اسی طرح جب ان کی بیٹیوں کی شادی کی بات آئی تواحمداوراس کی اہلیہ نے طے کیا کہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں بھی ایک ہی پیشہ سے وابستہ شخص سے ہونی چاہیے تاکہ جوڑے ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں۔

جیسا کہ مضمون کے شروع میں بتایا گیا کہ احمد اور ان کی اہلیہ جہیز کے بھی خلاف تھےاوروہ لوگ اپنی بیٹیوں کو "فروخت" کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے لیےایک ایسےجیون ساتھی کی تلاش کر رہے تھے، جوانہیں سمجھیں اور پیار کرے۔

قطرمیں تقریباً 35 سال کام کرنے کے بعد احمد اپنے خاندان کے ہمراہ واپس کیرالہ لوٹ آئے۔ ہندوستان واپسی کے تقریباً دو سال بعد احمد کو سینے میں کچھ تکلیف ہوئی اور وہ انتقال کر گئے۔

اس وقت صرف دو بیٹیوں کی شادی ہوئی تھی۔ اس کے بعد، زینہ نے اپنی بیٹیوں کی ہمت بڑھائی کہ والد کا انتقال ان کے حوصلوں نہ ڈگمگائے۔ پھر انہوں نے اپنی دیگر دو بیٹیوں شادی کی۔

فاطمہ اس وقت ابوظہبی کے ایک فوجی اسپتال میں کام کر رہی ہیں۔ ہاجرہ نے بتایا کہ وہ بیرون ملک سے واپس آئی ہیں اور اپنا پی جی کورس کرنے کا ارادہ کر رہی ہیں۔

عائشہ کوڈنگلور کےایک اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں جب کہ فائزہ اور اس کے شوہر کوچی میں کام کررے ہیں۔

یہ کہانی ایک خواب کی طرح ہے،تاہم اس خواب کو پورا کرنے میں ایک لمبا عرصہ لگ گیا۔ ان بہنوں کے پاس والد کے ساتھ کی کوئی گروپ فوٹو نہیں ہے۔ وہ اس کا خواب اپنے دلوں میں رکھتی ہیں۔