جدہ :سعودی خواتین کے سائیکلنگ کلب کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-07-2021
نسرین حکیم
نسرین حکیم

 

 

 جدہ:ہر میدان میں اب سعودی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ایسا لگ رہا ہے گویا سعودی عرب کی خواتین کے پر لگ گئے ہوں۔بدل گیا ہے سعودی عرب۔ یہ تبدلیاں ہیں ثبوت۔خواتین کا ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر آگے آنا ملک کے لئے ایک روشن علامت ہے۔

اب سرخیوں میں ہے خواتین کا سائیکلنگ کلب۔جدہ کی سڑکوں پر خواتین کے غول نظر آتے ہیں۔جو سائیکلوں پر رواس دواس رہتے ہیں۔اس لیڈیز سائیکلنگ کلب نے اب سب کی توجہ حاصل کرنی شروع کردی ہے۔

نسرین حکیم اور ان کا دوست اشواق الحازمی جدہ سائیکلنگ لیڈیز کلب کے بانی ہیں۔ اس کلب کے ممبران نے 100 کلو میٹر کے فاصلے سے تجاوز کیا اور ریسوں میں حصہ لیا۔

 نسرین حکیم جب چھوٹی تھیں تو باسکٹ بال اور والی بال کے میچ دیکھنے جاتی تھیں اور جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں وہیں سے سپورٹس سے محبت ہو گئی تھی۔ اشواق الحازمی مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو مکہ مکرمہ کے شاہ عبد العزیز سپورٹس سٹی میں باسکٹ بال اور والی بال میچ دکھانےکے لیے لے جایا کرتےتھے۔

’میں شائقین کی آوازیں، ان کا جوش سنتی تھی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔ یہ ماحول میرے لیے مثالی تھا اور اس نے میرے اندر سپورٹس اور کھیلوں کے جذبے کو جنم دیا۔‘نسرین حکیم مکہ میں الوحدہ ایف سی بھی گئیں جہاں وہ اور ان کے والد کے ساتھ محمد رمضان اور زاہد قدسی جیسے مشہور سپورٹس مبصرین بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ’وہ جب بھی ہمارے گھر آتے تو میں انہیں ہمیشہ دیکھا۔ ہمارا گھر ہر طرح کے کھیلوں کے مرکز کی طرح تھا۔ میں بچپن سے ہی کھیلوں سے وابستہ ہو گئی تھی۔‘نسرین حکیم اور ان کے دوست واٹر فرنٹ سے تاریخی علاقے البلد تک جاتے اور سٹارٹنگ پوائنٹ پر واپس آتے تھے۔ ٹیم کا ہر ممبر ہر روز 90 منٹ سائیکلنگ کرتا تھا۔

 سائیکلنگ ان کے لیے آزادی کی علامت ہے اور اس سے ان کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثر پڑا ہے۔

مجھے اس دوران ایک خاندانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ میری نفسیاتی حالت متاثر ہوئی تھی کیوں کہ میں ایک ایسی شخص ہوں جسے متحرک رہنا پسند ہے اس لیے میں اکیلے بائیک چلاتی تھی۔ اس وقت میرے پاس بائیک نہیں تھی چنانچہ سائیکلنگ کی پریکٹس کرنے کے لیے سائیکل کرایہ پر لیا کرتی تھا۔ جدہ میں لوگوں کی موجودگی سے مجھے سب سے زیادہ مدد ملی جو نسلوں اور پس منظر کے تنوع کی وجہ سے ثقافتوں اور فنون کے لیے آزاد ہیں۔

تاہم ان کا شوقیہ سائیکل سوار ہونے سے لے کر پروفیشنل سائیکلسٹ تک کا سفر تھکا دینے والا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سائیکلنگ کے اپنے پیشہ ورانہ طریقے ہیں جن میں عالمی تجربے سے عبور حاصل کرنا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی سخت ٹریننگ اور سیکڑوں کلومیٹر روزانہ سفر کرنے کے باوجود روڈ کے آغاز پر ہوں لیکن یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں صبر، جذبہ اور محبت کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے میرے نزدیک اس کھیل سے میری لگاؤ کا دور خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے ساتھ ملا۔ اس نے رکاوٹوں کو دور کرنے اور زیادہ پیشہ ورانہ اور متحرک مراحل کی طرف بڑھنے میں میری بہت مدد کی ہے۔

 حکیم سائیکلنگ کی پریکٹس کر رہی تھیں جب ان کی اشواق الحازمی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے جدہ سائیکلنگ ٹیم کے رہنما اشرف بامطرف کو ایک ٹیم بنانے کا مشورہ دیا۔ ’وہ اس نظریے سے بہت متاثر ہوئے اور ہم نے مل کر جدہ سائیکلنگ لیڈیز کلب کی بنیاد رکھی۔

 نسرین حکیم نے کہا کہ انہیں تیاری اور تربیت کے معاملے میں عالمی تجربات سے فائدہ ہوا ہے حالانکہ سعودی سڑکیں سائیکلنگ کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئیں تھیں اور نہ ہی اس کھیل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ تاہم سائیکلسٹ مملکت میں حفاظتی طریقہ کار پر قائم رہ سکتے تھے جیسے ہیلمٹ پہننا، لائٹس اور ریفلیکٹرز رکھنا اور صحیح لینیں استعمال کرنا۔