چندخواتین نےایک گائوں کوقومی شناخت کیسےدلائی؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 03-11-2021
چندخواتین نےایک گائوں کوقومی شناخت کیسےدلائی؟
چندخواتین نےایک گائوں کوقومی شناخت کیسےدلائی؟

 

 

میرٹھ: ہمت وحوصلہ ،انسان کے حالات زندگی کوبدل سکتاہے، محلوں،گائووں ،شہروں اور ملکوں کے حالات بدل سکتاہے۔خواتین کو عموماً صنف نازک اورکمزورسمجھا جاتا ہے مگراترپردیش کے ضلع میرٹھ کے ایک گائوں کی کچھ مسلم خواتین نے حوصلہ کیا تونہ صرف ان کے گھر کے حالات بدلے بلکہ ان کے کام کو قومی شناخت ملی اور اب ان کی بین الاقوامی سطح پررسائی بن رہی ہے۔یہ خواتین جھالر،فانوس اور سجاوٹی سازوسامان بناتی ہیں۔ان چیزوں کی عام دنوں میں تو مانگ رہتی ہی ہے مگر تہواروں کے موسم اور خاص طور پر دیوالی، عید وغیرہ میں بڑھ جاتی ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ نئے سجاوٹی سامان خریدتے اور گھروں کو سجاتے ہیں۔ جیسوری گائوں کی خواتین جو پہلے بیروزگارتھیں،انھیں اس کام کے سبب روزگارمل گیا ہے اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر رہی ہیں۔

خواتین بنیں خودکفیل

جیسوری کی خواتین جہاں اپنے اس کام کے ذریعے خود انحصار ہندوستان کاپیغام دے رہی ہیں،وہیں خواتین کی خودمختاری کا بھی پیغام دے رہی ہیں۔ پہلے انھیں ایک ایک پیسے کے لئے مردوں کا دست نگربننا پڑتا تھا مگر اب وہ خود کفیل بن گئی ہیں اور گھر کے اخراجات پورے کرنے میں مددگار بھی بن رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع میرٹھ کے جیسوری گاؤں کی چار بیٹیوں نے جس کام کا آغازکیا تھا اب اسے پورا گائوں کر رہا ہے۔گویا انھوں نے دوسروں کے لئے عملی مثال پیش کی اور دوسروں نے ان کی تقلید شروع کردی ہے۔ انہوں نے اپنی مہارت اور محنت سے معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے۔

دن دونی رات چوگنی ترقی

محض چھ سال قبل کی بات ہے کہ جیسوری گاؤں کی کچھ خواتین نے سیلف ہیلپ گروپ بنا کر، جھالر، فانوس، سیٹینگ اور پینل بنا نے کا کام شروع کیا۔اس گروپ کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ اس میں آنے والی لاگت کو کوئی عورت خودپوری نہیں کر سکتی تھی کیونکہ تمام خواتین غریب تھیں۔ ۔ گاؤں کی رہنے والی سبیہ نے خواتین کو ساتھ ملا کر ایک گروپ بنا کر کام شروع کیا۔ چندسالوں میں کام میں اس قدر اضافہ ہواکہ اب گاؤں میں سات گروپ چل رہے ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے لوگ آکر جھالر، فانوس اور سجاوٹی سازوسامان لیتے ہیں۔ اب دہلی سے یہ سامان باہر کے ملکوں میں بھی جاتا ہے۔ سبیہ نے بتایا کہ پہلا گروپ گاؤں کی گلستاں، جنوبہ اور اسماء کے ساتھ بنایا گیا تھا۔

۔۔۔۔اور کارواں بنتا گیا

کھرکھودہ بلاک کے جیسوری گاؤں کی رہنے والی عاصمہ نے بتایا کہ گروپ بنانے سے پہلے ان کی مالی حالت کمزور تھی۔ گروپ بنانےکےبعد ان کے بنائے ہوئے جھالروں کی مانگ بڑھنے لگی۔ کام بڑھنے سے کمائی بڑھنے لگی اور ان کے خواب پورے ہونے لگے۔ وہ اپنے خاندان کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ اسی طرح سلمیٰ اور شبانہ کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا لیکن اب وہ صحیح طریقے سے اپنے خاندان کاگزاراکر رہی ہیں۔

زندگی ہوئی آسان

گلستاں اور جنوبہ نے بتایا کہ انہوں نے گروپ کی آمدنی سے گھریلو اخراجات چلانے کے بعد بیٹیوں کی شادی کی ہے۔ حکومت کی اسکیم سے بھی مدد ملی اوران کی بیٹیوں کے گھر آباد ہوئے۔اسی قسم کی کہانیاں دوسری خواتین بھی سناتی ہیں۔

قومی شناخت بن گئی

جیسوری کے عارف کا کہنا ہے کہ دیوالی پر خواتین کی طرف سے تیار کردہ سجاوٹ کے سامان کی مانگ اچانک بڑھ گئی ہے۔ خواتین دن رات کام کر رہی ہیں پھر بھی آرڈر پورے نہیں ہو رہے۔ عارف کے مطابق یہاں کا سامان انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا تک جاتا ہے۔ جیسوری گاؤں کی خواتین کا بنایا ہوا سامان ملک کی مختلف ریاستوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی جا رہا ہے۔ خواتین خود انحصار ہو رہی ہیں۔ خواتین کے کام کو چاروں طرف سے سراہا جا رہا ہے۔