سینیٹری پیڈزکی مفت تقسیم،عرفانہ نے قائم کی مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
عرفانہ زرگر کی آنکھوں میں آنسو
عرفانہ زرگر کی آنکھوں میں آنسو

 

                                         افضل بٹ/ سری نگر

 دنیا میں سخاوت کرنے اور اپنے اسلاف بالخصوص مرحوم والدین کے ایصال ثواب کے لیے نوع بہ نوع کام انجام دئیے جاتے ہیں جن میں غریبوں کی مالی معاونت کرنا اور مفلسوں کو کھلانا شامل ہیں۔لیکن سری نگر کے نوشہرہ علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک جوان سال خاتون عرفانہ زرگر نے اپنے والد مرحوم کے ایصال ثواب اور غریب خواتین کی مدد کے لئے ایک روایت شکن مثال قائم کر کے اپنی نوعیت کا ایک منفرد مگر انتہائی حساس مشن اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔

عرفانہ زرگر وادی کشمیر میں غریب اور شرمیلی خواتین تک سینیٹری پیڈز و دیگر متعلقہ ضروریات پہنچاتی ہیں، اس خرچ کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی ہیں بلکہ انہوں نے اپنی تنخواہ ایک حصہ اسی نیک کام کے َلئے مختص رکھا ہے۔'آوازدی وائس‘نے جب عرفانہ زرگر کے ساتھ ان کے اس مشن کا ذکر چھیڑا تو ان کا برجستہ کہنا تھا: 'ضرورت مند خواتین تک سینیٹری پیڈز و دیگر متعلقہ چیزیں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ پہنچانا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور میں یہ کام اپنے مرحوم والد کے ایصال ثواب کے لئے آخری سانس تک کرتی رہوں گی۔'

انہوں نے کہا کہ میں اپنے کام کے دائرے کو مزید وسعت دینے پر غور کر رہی ہوں میں وادی کے دور افتادہ دیہات تک اپنے مشن کو لے جانا چاہتی ہوں تاکہ وہاں کی غریب اورسیدھی سادہ خواتین تک پہنچ کر انہیں اس معاملے میں مدد فراہم کر سکوں۔عرفانہ زرگر صرف ضرورت مند خواتین تک ہی سینیٹری پیڈز نہیں پہنچا رہی ہیں بلکہ انہوں نے سر ی نگر میں خواتین کے لئے مخصوص واش روم میں یہ ضروری چیزیں دستیاب رکھنا شروع کی ہیں۔

کہتی ہیں: 'ہمارے ہاں پہلے خواتین کے لئے الگ واش رکھنے کا رواج ہی نہیں ہے اب اگر سری نگر میں کہیں کہیں خواتین کے لئے الگ واش روم ہیں اور دفتروں میں بھی اب یہ نظم پیدا ہونے لگا ہے لیکن ان میں خواتین کے لئے ماہواری کی حالت میں ضرورت پڑنے والی یہ چیزیں دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔

'میں نے اب یہاں پبلک واش روم میں ماہواری کے دوران خواتین کو ضرورت پڑنے والی ان چیزوں کو دستییاب رکھنا بھی شروع کیا ہے تاکہ دوران سفر اگر کوئی خاتون اس مسئلے سے دوچار ہوجائے تو وہ مجبور و شرمندہ نہ ہوجائے۔'یہ پوچھے جانے پر کہ کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن کے دوران کس طرح اپنے مشن کو جاری رکھا تو عرفانہ زرگر نے کہا: 'میں نے اس لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مند خواتین تک صرف سینیٹری پیڈز ہی نہیں پہنچائے بلکہ انہیں ہینڈ سینیٹائزر اور ہینڈ واش بھی فراہم کئے تاکہ وہ کورونا سے بھی محفوط رہ سکیں۔'

وہ کہتی ہیں: 'جب مجھے کسی خاتون سے اس سلسلے میں فون آتا تھا تو میں پیدل چل کر ان تک پہنچ جاتی تھی اور انہیں ضروری چیزیں فراہم کرتی تھیں بعض خواتین اپنے والدین کو بھیج کر مجھ سے یہ چیزیں لے جاتی تھیں۔'عرفانہ زرگر نے ضرورت مند خواتین کی باقاعدہ ایک فہرست بنا رکھی ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ان کا کہنا ہے: 'میں نے ضرورت مند خواتین کی باقاعدہ ایک فہرست بنا رکھی ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، میں اب انتہائی غریب، بیوہ اور طلاق شدہ خواتین پر زیادہ فوکس کرتی ہوں۔'

موصوفہ نے اکیلے ہی اس بھاری بھرکم بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھا رکھا ہے۔ 'میں اکیلے ہی یہ کام انجام دے رہی ہوں بسا اوقات ٹرانسپورٹ سہولیت میسر نہیں ہوتی ہے، اپنے تنخواہ کا ایک حصہ اسی کام پر صرف کرتی ہوں اور دفتری اوقات کے بعد صبح اور شام کے وقت ہی یہ کام کر رہی ہوں گھر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے، آرام کرنے کے لئے بھی وقت نہیں ملتا ہے۔'

یہ پوچھے جانے پر کہ مالی مدد کی کسی طرف سے کوئی پیش کش آئی کہ نہیں تو ان کا جواب تھا: 'فی الوقت میں خود ہی یہ خرچہ برداشت کر رہی ہوں، مدد کی پیشکش آئی بھی تھی لیکن یہ خیرات کا کام ہے اس میں دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔'عرفانہ کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر بالخصوص دیہی علاقوں میں خواتین کی ماہواری کو آج بھی عیب سمجھا جاتا ہے اور اس میں شرمندگی محسوس کی جاتی ہے تاہم اب رفتہ رفتہ بیداری اور جانکاری عام ہونے سے تھوڑا بہت فرق آیا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔

کہتی ہیں: 'ماہواری خواتین کے لئے ایک نعمت الٰہی ہے اسی پر نسل انسانی کی بنیاد ہے اگر اس میں عدم توازن پیدا ہوجائے یا یہ سلسلہ ختم ہوجائے تو دنیا کا سفر ہی تھم جائے گا۔'عرفانہ کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین کی نہ صرف زیادہ عزت کرنی چاہئے بلکہ ان کی خدمت کرنی چاہئے ان کو کوئی سخت کام کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ان کا کہنا ہے کہ ہر گھر کے سرپرست کو گھریلو اشیائے ضروریہ کی خریداری کے ساتھ ساتھ خواتین کو ماہواری کے دوران ضرورت پڑنے والی ان چیزوں کو بھی خرید کے رکھنا چاہئے کیونکہ ایک گھر کی شان اور آن بان ایک خاتون ہی ہوتی ہے۔عرفانہ کہتی ہیں: 'اگر ہم آج ایک خاتون کے لئے بازار سے ایک سینیٹری پیڈ نہیں لائیں گے تو کل ایسا نہ ہو کہ خدا نخواستہ ہمیں اس کی صحت پر لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑیں۔'

'آوازدی وائس' نے پوچھا یہ انوکھا خدمت خلق کرنے کا خیال کیسے آیا تو عرفانہ زرگر نے کہا 'میں ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتی ہوں میں والدین کی شادی کے اٹھارہ برس بعد پیدا ہوئی ہوں اوراس کے بعد بچپن میں ہی میرے والد انتقال     کرگئے گھر میں صرف ماں تھیں اورآمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔جب میں کمانے لگی تو یہ خیال دل و دماغ پر چھایا رہا کہ غریب خواتین ماہواری کے دوران اپنی اس ضرورت کو کس طرح پورا کرتی ہوں گی تو میں نے ہمت کر کے یہ مشن شروع کیا۔'عرفانہ زرگر وادی میں 'پیڈ وومن آف کشمیر' کے نام سے مشہور ہیں۔اس کے متعلق ان کا کہنا ہے: 'مجھے یہاں پیڈ وومن کے نام سے اب پکارا جا رہا ہے اس سے میرے کام پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے میں اپنا کام زندگی کی  تک جاری رکھوں گی چاہئے کوئی تعریف کرے یا تنقید۔آخری سانس

سرکار و عوام سے مطالبہ

عرفانہ زرگر کہتی ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ خواتین کے لئے الگ واش روم بنائیں اور ان میں سینیٹری پیڈز و دیگر متعلقہ چیزیں ضرور دستیاب رکھیں۔'عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حساس معاملے کے تئیں اپنی ذمہ داری انجام دے کر اپنے گھر کی خواتین کے لئے ماہواری کے دوران ضرورت پڑنے والی یہ چیزیں ہر حال میں میسر رکھیں۔