فرانس: نابالغ لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی کےلئےبل پیش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-05-2021
ایک نیا تنازعہ
ایک نیا تنازعہ

 

 

 پیرس: یورپ میں ایک بار پھر حجاب سرخیوں میں آگیا ہے۔ فرانس نے اب ۱۸ سال سے کم عمرلڑکیوں کے حجاب استعمال کرنے کے خلاف بل پیش کردیا ہے۔یعنی کے حجاب کے خلاف قانون اب صرف ایک قدم کی دوری پر ہے۔فرانس کے مسلمانوں میں ایک بار پھر بے چینی ہے۔ ایک جانب کورونا کا عذاب اوراب سرکاری فیصلہ۔ کسی کی نظر میں یہ مذہبی آزادی یا اس سے بھی زیادہ ذاتی پسند اور نا پسند کا معاملہ ہے تو کسی کی نظر میں حجاب شدت پسندی اور سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔یورپ کی برادری اسی کشمکش میں الجھی ہوئی ہے۔

کئی یورپی ممالک میں برقع پابندی کا شکار ہوچکا ہے۔کئی میں حجاب پر قانونی جنگ جاری ہے۔فرانس میں اس قدم کے بعد سوشل میڈیا حرکت میں آگیا ۔بل کے خلاف سوشل میڈیا اور مسلمان لڑکیوں کی حمایت میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے۔ واضح رہے کہ فرانس نے 2004ء میں سرکاری اسکولوں میں اسلامی ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی تھی اور 2010ء میں گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر مکمل چہرے والے نقاب پر پابندی عائد کردی تھی۔

مریم ہیں توجہ کا مرکز

سوشل میڈیا پر حجاب کی حمایت میں ٹرینڈ سولہ سالہ مریم کے حق میں چلایا گیا ہے جو مسلمان گھرانے کی لڑکی ہیں اور حجاب کو آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار سمجھتی ہیں۔مریم اس وقت حجاب لگائے فرانسیسی گلیوں اور شاہراہوں میں گھومتی ہیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ جلد ہی ان سے یہ حق چھین لیا جائے گا کیوں کہ فرانسیسی سینیٹرز نے ایک بل پیش کردیا ہے۔مریم نے کہا کہ حجاب میری شناخت کا حصہ ہے، مجھے یہ ہٹانے پر مجبور کرنا ذلت کی بات ہوگی، میں سمجھ نہیں سکی کہ وہ ایسا قانون کیوں منظور کرنا چاہیں گے جو امتیاز برتتا ہو۔

مسلمان خواتین کی آن لائن جنگ

 نوجوان خواتین کا ایک گروپ حجاب پر ممکنہ پابندی کے خلاف 'ہینڈز آف مائی ہجاب' کے ہیش ٹیگ سے مہم چلا رہا ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر حمایت حاصل بھی کر لی ہے جس میں قابل ذکر نام امریکی قانون ساز اور اولمپکس میں حجاب پہن کر حصہ لینے والی پہلی امریکی خاتون ابیج محمد کے ہیں۔اس سلسلے میں آن لائن 'ہینڈز آف مائی حجاب' کے ہیش ٹیگ سے فرانس سمیت اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بھی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔مذہبی مقامات اور مذہبی علامتوں کے حوالے سے سیکولر ملک فرانس ایک عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت فرانس میں ہی رہائش پذیر ہے۔یہ ترمیم تمام مذہبی علامتوں کے لیے تھی لیکن مخالفین کا ماننا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا، سینیٹر کرسچن بلھاک نے اپریل میں قانون سازوں سے کہا تھا کہ اس سے نوجوانوں کی حفاظت ہو گی۔انہوں نے ایوان بالا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ والدین کو اپنے بچوں پر یہ پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں۔

حکومت کےفیصلے

 صدر ایمینوئیل میکرون کی حکومت کے علیحدگی مخالف بل میں جبری شادیوں اور کنواری پن کے ٹیسٹوں پر پابندی لگائی گئی ہے اور اس میں مذہبی انجمنوں کی سخت نگرانی بھی شامل ہے، ابتدائی طور پر اس بل میں نابالغوں کے عوامی سطح پر حجاب پہننے سے پابندی کے حوالے سے کوئی بات شامل نہیں کی گئی تھی۔ قدامت پسند اکثریتی سینیٹ اراکین نے بل ترمیم کرتے ہوئے یہ پابندی عائد کی جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مائیں بچوں کے ساتھ اسکول جاتے ہوئے حجاب نہیں پہنیں گی اور مکمل جسم کے برکینی سوئمنگ سوٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ایک مشترکہ کمیٹی ان ترامیم پر بحث کرے گی اور انہیں ابھی بھی بل سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن 22 سالہ حبا لٹریچ کا ماننا ہے کہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فرانس میں خواتین کے جسم، انتخاب اور عقائد کے حوالے سے مسلسل پالیسی سازی کا عالم ہے جبکہ ساتھ ساتھ مسلم خواتین کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔