فاطمہ کے حوصلے کی اڑان،کردیگی حیران

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 05-05-2022
گھریلوتشدد کی شکارفاطمہ کے حوصلے کی اڑان
گھریلوتشدد کی شکارفاطمہ کے حوصلے کی اڑان

 

 

بنگلور،کولکاتا: حوصلہ کی اڑان انسان کو بلند مقام تک لے جاتی ہے اور فاطمہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ وہ شوہر کے مظالم کی شکار تھی، اس پر تشدد ہوتا تھا۔ اس کے شکم میں پل رہے بچے کی جان لینے کی بھی کوشش ہوئی مگر جب فاطمہ نے اپنے بل بوتے زندگی جینے کی ٹھانی توبہت کچھ بدل گیا۔

دنیا میں ماں سے بڑا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ محض شاعرانہ بات نہیں ہے بلکہ وہ سچائی ہے جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ اس طاقت کی ایک اور مثال کولکتہ کی ایک خاتون نے دی ہے جس نے یہ سوچ کر شادی کی تھی کہ اسے دنیا بھر کا پیار ملے گا۔اس کا جیون ساتھی اس کے خوشی اور غم کا ساتھی ہوگا ، لیکن بعد میں اس کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گئی۔

awaz

اپنی ماں اور بیٹی کے ساتھ فاطمہ

تاہم اس مشکل وقت میں بھی خاتون نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کی خاطر ہمت نہیں ہاری اور جہنم جیسی زندگی سے باہر نکل کر اپنے طور پر نئی زندگی کا آغاز کیا۔

فاطمہ نے اپنی پوری کہانی انسٹاگرام پیج پر شیئر کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سال 2019 میں اپنے سابق شوہر سے کیسے ملی۔ اس دوران انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں بے حد پیار کرنے والا ساتھی مل گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے انھیں سمجھایا بھی کہ وہ جس لڑکے سے شادی کا ارادہ رکھتی ہیں وہ لڑکا ٹھیک نہیں ہے۔

فاطمہ جب اس لڑ کے سے اس بارے میں سوال کرتی تھیں تو وہ کہتا کہ دوسرے اس سے حسد کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ دونوں شادی کریں لیکن بعد میں دوسروں کی باتیں سچ ثابت ہوئیں۔

شادی کے بعد وہ بنگلور آگئیں اورآہستہ آہستہ شوہر نے انھیں دوستوں اور گھر والوں سے الگ کرنا شروع کر دیا۔ اگر وہ ناراض ہوتا تو اس کے لیے فاطمہ اور اس کے والدین کو بھی قصور وار ٹھہراتا۔

چند ماہ بعد کورونا پھیلنا شروع ہوا اور لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا۔ اسی دوران فاطمہ کو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ اس خوشی کا جشن مناتی، اس کے شوہر کا اصلی رنگ سامنے آگیا۔

اس نے فاطمہ کے ساتھ مار پیٹ اور گالی گلوج شروع کردیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب ہوتے گئے۔ شوہر نے ذہنی اور جسمانی ایذارسانی شروع کردی۔ کبھی وہ ہاتھ اٹھاتا اور کبھی بدن پر گرم کافی پھینک دیتا۔

ایک بار جھگڑے کے دوران اس نے فاطمہ کے پیٹ میں گھونسا مارا۔ یہ اس کے اور شکم میں پلنے والے بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ جب فاطمہ نے سسرال والوں سے مدد لینے کی کوشش کی تو انہوں نے الٹا اس پر الزام لگایا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سب شادی شدہ زندگی کا حصہ ہے۔  

جب فاطمہ نے دیکھا کہ اس کے شوہر نے اسے نقصامنپہنچانے کی کوشش کی اور سسرال والوں نے بھی مداخلت سے انکار کردیا تو انھوں نے باہر سے مدد مانگا۔

انھوں نے اپنے ڈاکٹر کو صورت حال کی جانکاری دی اور ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا کہ وہ سفر کرنے کے قابل ہیں۔ اس کے بعد فاطمہ نے اپنے شوہر کے خلاف آن لائن شکایت کی۔ اس پر کاروائی میں تقریباً ایک ہفتہ لگا۔

اسی دوران وہ گھر سے نکلنے کی کوشش کرنے لگیں۔ شوہر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے کمرے میں قید کر دیا اور کھانا تک بند کردیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران سفرکی اجازت حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ یہاں تک کہ کیب ڈرائیور بھی گاڑی میں لینے کو تیار نہیں تھے۔

فاطمہ کی حالت جان کر آخر کار ایک کیب ڈرائیور راضی ہو گیا۔ وہ خاموشی سے گھر کی بالکونی سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ وہ بنگلور ہوائی اڈے پر پہنچیں اور کولکتہ میں اپنے ماموں کے گھر جانے کے لیے فلائٹ لی۔ گھر پہنچ کر انھوں نے طلاق کی درخواست دے دی۔

فاطمہ کے لیے یہ سب کچھ آسان نہیں تھا لیکن اپنے بچے کی خاطر خود کو مضبوط کیا اور خود کو بیکری کے کام میں مصروف کرلیا۔ خوش قسمتی سے فاطمہ کے کیک اور پیسٹری لوگوں میں مقبول ہوگئے۔ انھوں نے پیسے اکٹھے کیے اور مشینیں خریدیں اور اپنا کیفے بھی کھول لیا۔ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کے ساتھ کام پر جاتی تھیں۔ اپنے خاندان کی حمایت اور لوگوں کے مثبت ردعمل کی وجہ سے فاطمہ نے پہلے سال ہی 30 لاکھ روپے کمالیے۔

ایک بیٹی کی ماں فاطمہ اپنی بچی کو دنیا کی تمام خوشیاں اوربہترین زندگی دینا چاہتی ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ اب ان کے ذہن میں کسی بھی چیز کا خوف نہیں ہے اور ان کی پوری توجہ صرف کام اور بیٹی پر ہے۔

آج فاطمہ کی کہانی بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔ سچ ہے جہاں چاہ،وہاں راہ۔