بشری ندا۔کشمیر کی جو اں سال مصنفہ کلامز گولڈن ایوارڈ کے لئے نامزد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-02-2021
بشری ندا
بشری ندا

 

ساجد رسول۔ سری نگر

۔سرینگر جنوبی کشمیرجو گزشتہ کئی سال سے جنگجو انہ سرگرمیوں کیلئے سرخیوں میں رہا ہے،اب ایک بڑی اور اچھی خبر آئی ہے۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا۔ایک خوشگوار تبدیلی کی خوشبو۔جس کا نام ہے بشری ندا۔ ’کلامز گولڈن ایوارڈ 2021‘ کیلئے نامزد ہونے والی کشمیری دوشیزہ۔16 سالہ بشری ندا کو بہترین مصنفہ ہیں۔ یہاں ایسے چہرے بھی سامنے آئے ہیں جو نہ صرف کشمیر میں معروف ہوئے بلکہ ملک بھر میں توجہ کا مرکز بنے ہیں۔۔کشمیر کے ضلع کولگام کے ایک گاؤں کنی پورہ سے ان کا تعلق ہے، اب دو کتابیں جن میں ''ٹولپس آف فیلنگس'' اور ''دی ڈیوی'' شامل ہیں تحریر کی ہیں۔ اس وقت ان کی تیسری کتاب پر کام چل رہا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان کی تحریر کردہ دنوں کتابیں دراصل شعری مجموعے ہیں لیکن ان کی شاعری سائنسی موضوعات پر مبنی ہے جو اپنے آپ میں ایک منفرد قسم کی شاعری ہے۔خیال رہے کلامز گولڈن ایوارڈ ہندوستان کے 11 ویں صدر اور ایرواسپیس سائنسدان اے پی جے عبد الکلام کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ اعزاز شعبہ سائنس اور سماجیات میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر دیا جاتا ہے۔

والد کی موت کا صدمہ

بشری ندا کی زندگی آلام و مصائب سے پُر ہے، ان کو اپنے اس ادبی سفر کے دوران کافی زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔تقریبا ڈھائی سال پہلے ان کے والد جو ایک سنگین مرض میں مبتلا تھے انتقال کرگئے تھے۔ اس طرح سے بشرا کی زندگی میں ان کے بقول مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کیونکہ اتنی کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھنا ایک لڑکی کیلئے سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے۔

nida

پرعزم ندا اپنی والدہ کے ساتھ

ماں نے دیا تھا سہارا

’آواز دی وائس‘ سے بات کرتے ہوئے بشری نے بتایا کہ والد کے انتقال کے بعد میں صدمے میں چلی گئی تھی اور میری زندگی پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ تاہم ان کے بعد میری ماں نے جس طرح سے ہمیں زندگی جینے کا ایک حوصلہ عطا کیا اور کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دی- میری والدہ نے میری تخلیقی صلاحیتوں کو جو میرے والد کے انتقال کے بعد خاموش ہوگئی تھی کو ایک بار پھر جگایا اور مجھے لکھنے کیلئے دوبارہ آمادہ کیا-‘بشری کا کہنا ہے کہ ان کی ماں نے انہیں بتایا کہ دنیا میں لکھتے تو بہت لوگ ہیں، تخلیقی صلاحیتیں سب کے پاس موجود ہوتی ہیں لیکن اگر انسان کو لکھنا ہی ہے تو اسے منفرد اور مختلف موضوعات پہ لکھنا چاہئے جس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے اور خود بھی انسان نام کمائے۔بشری ایک شاعرہ ہیں تو انہوں نے اپنی ماں کی نصیحتوں پر عمل کرکے سائنسی موضوعات پر شعر لکھنا اور نظمیں تحریر کرنا شروع کیا۔ ان کے دو شعری مجموعے '' دی ڈیوی اور ٹولپس آف فیلنگس'' شائع ہوچکے ہیں۔

گھر میں خوشی کی لہر

کلامز گولڈن ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے پر آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے بشری کی بڑی بہن سائمہ نے بتایا '' ہم سب کو بے حد خوشی ہے کہ بشری ندا کو'' انٹرنیشنل کلامز گولڈن ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ ہمیں نہ صرف امید ہے بلکہ یقین بھی ہے کہ وہ یہ ایوارڈ جیتی گی ''۔ انہوں نے کہا اس ایوارڈ کا اعلان 20 فروری کو ہونا ہے۔قابل ذکر ہے کہ انہیں یہ اس ایوارڈ کیلئے کم عمری میں اس طرح کی کتاب شائع کرنے پر نامزد کیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ دنیا بھر میں الگ الگ شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کرنے اور عالمی سطح پر کسی شعبے میں ریکارڈ بنانے پر دیا جاتا ہے۔

سائنس ہے پسند

بشری کے مطابق۔ ''میں سائنس کے موضوعات پر لکھنا اور جو کچھ جانتی ہوں اس کو دریافت کرنے کیلئے لکھنا پسند کرتی ہوں۔ میں سائنسی علم میں اپنی شراکت کے بارے میں بہت آرزو مندہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہی ہوں اس سے ان علوم کو سمجھنے میں لوگوں کو کافی آسانی ہوگی اور اس سے سماج کو فائدہ پہنچے گا اور یہی میری زندگی کا مقصد بھی ہے ''۔قابل ذکر ہے کہ بشرا نے یتیمی اور دیگر مالی مسائل کے باوجود اب تک جو کامیابی حاصل کی ہیں وہ نہ صرف ان کے اہل خانہ اور ضلع کلگام کیلئے خوشی و مسرت کا باعث ہے بلکہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام لڑکیوں کیلئے قابل تقلید ہیں ۔